محبت زہر کھا کے آئی تھی کیا

جون ایلیا


یہ پیہم تلخ کامی سی رہی کیا
محبت زہر کھا کے آئی تھی کیا
مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے
تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا
شکست اعتماد ذات کے وقت
قیامت آ رہی تھی آ گئی کیا
مجھے شکوہ نہیں بس پوچھنا ہے
یہ تم ہنستی ہو اپنی ہی ہنسی کیا
ہمیں شکوہ نہیں اک دوسرے سے
منانا چاہیے اس پر خوشی کیا
پڑے ہیں ایک گوش میں گماں کے
بھلا ہم کیا ہماری زندگی کیا
میں رخصت ہو رہا ہوں پر تمہاری
اداسی ہو گئی ہے ملتوی کیا
میں اب ہر شخص سے اکتا چکا ہوں
فقط کچھ دوست ہیں اور دوست بھی کیا
محبت میں ہمیں پاس انا تھا
بدن کی اشتہا صادق نہ تھی کیا
نہیں رشتہ سموچہ زندگی سے
نہ جانے ہم میں ہے اپنی کمی کیا
ابھی ہونے کی باتیں ہیں سو کر لو
ابھی تو کچھ نہیں ہونا ابھی کیا
یہی پوچھا کیا میں آج دن بھر
ہر اک انسان کو روٹی ملی کیا
یہ ربط بے شکایت اور یہ میں
جو شے سینے میں تھی وہ بجھ گئی کیا
مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن
ہزج مسدس محذوف
فہرست