وہ آئے تو بھی نیند نہ آئی تمام شب

مومن خان مومن


تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب
وہ آئے تو بھی نیند نہ آئی تمام شب
واں طعنہ تیر یار یہاں شکوہ زخم ریز
باہم تھی کس مزے کی لڑائی تمام شب
رنگیں ہیں خون سر سے وہ ہاتھ آج کل رہے
جس ہاتھ میں وہ دستِ حنائی تمام شب
تالو سے یاں زبان سحر تک نہیں لگی
تھا کس کو شغل نغمہ سرائی تمام شب
یک بار دیکھتے ہی مجھے غش جو آ گیا
بھولے تھے وہ بھی ہوش ربائی تمام شب
مر جاتے کیوں نہ صبح کے ہوتے ہی ہجر میں
تکلیف کیسی کیسی اٹھائی تمام شب
گرم جواب شکوۂِ جور عدو رہا
اس شعلہ خو نے جان جلائی تمام شب
کہتا ہے مہروش تمہیں کیوں غیر گر نہیں
دن بھر ہمیشہ وصل جدائی تمام شب
دھر پاؤں آستاں پہ کہ اس آرزو میں آہ
کی ہے کسی نے ناصیہ سائی تمام شب
مومنؔ میں اپنے نالوں کے صدقے کہ کہتے ہیں
ان کو بھی آج نیند نہ آئی تمام شب
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست