وہ کون سی زمیں ہے جہاں آسماں نہیں

داغ دہلوی


دنیا میں آدمی کو مصیبت کہاں‌ نہیں
وہ کون سی زمیں ہے جہاں آسماں نہیں
کس طرح جان دینے کے اقرار سے پھروں
میری زبان ہے یہ تمہاری زباں نہیں
اے موت تو نے دیر لگائی ہے کس لیے
عاشق کا امتحان ہے تیرا امتحان نہیں
تنہا بھی جب رہے تو وہ رہتے ہیں‌ہوشیار
خود اپنے پاسباں‌ ہیں اگر پاسباں نہیں
ایسا خط ان کو راہ میں‌ ملتا ہے روز ایک
جس میں‌کسی کا نام کسی کا نشاں نہیں
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست