اپنی نظروں میں ہے سب کون و مکاں کا بہروپ

مصحفی غلام ہمدانی


جب سے صانع نے بنایا ہے جہاں کا بہروپ
اپنی نظروں میں ہے سب کون و مکاں کا بہروپ
میں گیا بھیس بدل کر تو لگا یوں کہنے
چل بے لایا ہے مرے آگے کہاں کا بہروپ
چاند تارے ہیں یہ کیسے یہ شب و روز ہے کیا
کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے یہاں کا بہروپ
چشمِ بینا ہوں تو داڑھی کی دو رنگی سمجھیں
ایک چہرے پہ ہے یہ پیر و جواں کا بہروپ
پہنے جاتے ہیں کئی رنگ کے کپڑے دن میں
کیا کہوں ہائے غضب ہے یہ بتاں کا بہروپ
باغ میں طرۂِ سنبل کی پریشانی سے
صاف نکلا ترے شوریدہ سراں کا بہروپ
مصحفیؔ سانگ سے کیا اکھڑے ہے پشم اس کی بھلا
سو طرح سے ہو جسے یاد زباں کا بہروپ
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست