اک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں

مرزا غالب


ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
اک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں
کس منہ سے شکر کیجیے اس لطفِ خاص کا
پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں
ہم کو ستم عزیز، ستم گر کو ہم عزیز
نا مہرباں نہیں ہے اگر مہرباں نہیں
بوسہ نہیں، نہ دیجیے دشنام ہی سہی
آخر زباں تو رکھتے ہو تم، گر دہاں نہیں
ہر چند جاں گدازی قہروعتاب ہے
ہر چند پشت گرمی تاب و تواں نہیں
جاں مطربِ ترانہ ھل من مزید ہے
لب پر دہ سنج زمزمۂ الاماں نہیں
خنجر سے چیر سینہ اگر دل نہ ہو دو نیم
دل میں چھری چبھو مژہ گر خونچکاں نہیں
ہے ننگِ سینہ دل اگر آتش کدہ نہ ہو
ہے عاردل نفس اگر آذر فشاں نہیں
نقصاں نہیں جنوں میں بلا سے ہو گھر خراب
سو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں
کہتے ہو کیا لکھا ہے تری سرنوشت میں
گویا جبیں پہ سجدۂِ بت کا نشاں نہیں
پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے کلام کی
روحُ القدس اگرچہ مرا ہم زباں نہیں
جاں ہے بہائے بوسہ ولے کیوں کہے ابھی
غالب کو جانتا ہے کہ وہ نیم جاں نہیں
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست