خدا کرے کے سمجھ لے مری زباں صیاد

قمر جلالوی


کہا تو ہے کہ قفس میں نہیں اماں صیاد
خدا کرے کے سمجھ لے مری زباں صیاد
قفس سے ہٹ کے ذرا سن مری فغاں صیاد
لرز رہی ہے ترے سامنے زباں صیاد
بہارِ گل میں مجھے تو کہیں چین نہیں
مرے خلاف وہاں باغباں یہاں صیاد
جو پر کتر دیے دنیا میں ہو گی رسوائی
پر اڑ کے جائیں گے جانے کہاں کہاں صیاد
قفس میں کانپ رہا ہوں کہیں فریب نہ ہو
بہارِ گل میں ہوا ہے جو مہرباں صیاد
میں کوئی دم کا ہوں مہمان تیلیاں نہ بدل
کہ جائے گی تری محنت یہ رائیگاں صیاد
تری نظر پہ ترانے تری نظر پہ فغاں
ملے گا تجھ کو نہ مجھ سا مزاج داں صیاد
جفائے چرخ پہ چھوڑا تھا آشیاں میں نے
ترے قفس میں بھی سر پہ ہے آسماں صیاد
قمر کی روشنی میں کیسے پھول کھلتے ہیں
مگر وہ چاندنی راتیں یہاں کہاں صیاد
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست