لفافے میں نہ رکھ لی نامہ بر میری زباں تو نے

قمر جلالوی


خدا معلوم کیا سے کیا کیا ہو گا بیاں تو نے
لفافے میں نہ رکھ لی نامہ بر میری زباں تو نے
مٹا کر رکھ دیے ہیں یوں ہزاروں بے زباں تو نے
نہ رکھا اپنے عہدِ ظلم کا کوئی نشاں تو نے
تجھ فوراً ہی میرا قصہ روک دینا تھا
ترا دکھتا تھا دل تو کیوں سنی تھی داستاں تو نے
ہرے پھر کر دیے زخمِ جگر صیاد بلبل کے
قفس کے سامنے کہہ کر گلوں کی داستاں تو نے
اسی وعدے پہ کھائی تھی قسم روئے کتابی کی
اسی صورت میں قرآں کو رکھا تھا درمیاں تو نے
عدو کہتے ہیں اب سہرا فصاحت کا ترے سر ہے
قمر بالکل بنا دی ہے تو نے دلھن اردو زباں تو نے
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست