یہ کب کے لے رہا ہے ہم سے اے چرخِ کہن بدلے

قمر جلالوی


نہ روکی برق تو نے آشیاں بدلے چمن بدلے
یہ کب کے لے رہا ہے ہم سے اے چرخِ کہن بدلے
محبت ہو تو جوئے شیر کو اک ضرب کافی ہے
کوئی پوچھے کہ تو نے کتنے تیشے کوہکن بدلے
سہولت اس سے بڑھ کر کارواں کو اور کیا ہو گی
نئی راہیں نکل آئیں پرانے راہزن بدلے
ہوا آخر نہ ہمر کوئی ان کے روئے روشن کا
تراشے گل بھی شمعوں کے چراغِ انجمن بدلے
لباس نو عدم والوں کو یوں احباب دیتے ہیں
کہ اب ان کے قیامت تک نہ جائیں گے کفن بدلے
قمر مابینِ عرش و فرش لاکھو انقلاب آئے
مگر اپنا خدا بدلا نہ اپنے پنجتنؑ بدلے
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست