چھیڑو نہ تم کو میرے بھی منہ میں زباں ہے اب

الطاف حسین حالی


مجھ میں وہ تابِ ضبط شکایت کہاں ہے اب
چھیڑو نہ تم کو میرے بھی منہ میں زباں ہے اب
وہ دن گئے کہ حوصلۂ ضبط راز تھا
چہرے سے اپنے شورش پنہاں عیاں ہے اب
جس دل کو قیدِ ہستی دنیا سے تنگ تھا
وہ دل اسیر حلقہ زلفِ بتاں ہے اب
آنے لگا جب اس کی تمنا میں کچھ مزا
کہتے ہیں لوگ جان کا اس میں زیاں ہے اب
حالیؔ تم اور ملازمت پیرے فروش
وہ علم و دیں کدھر ہے وہ تقویٰ کہاں ہے اب
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست