روح کی مدہوش بیداری کا ساماں ہو گئیں

مجید امجد


عشق کی ٹیسیں جو مضراب رگِ جاں ہو گئیں
روح کی مدہوش بیداری کا ساماں ہو گئیں
پیار کی میٹھی نظرسے تو نے جب دیکھا مجھے
تلخیاں سب زندگی کی لطف ساماں ہو گئیں
اب لبِ رنگیں پہ نوریں مسکراہٹ؟ کیا کہوں
بجلیاں گویا شفق زاروں میں رقصاں ہو گئیں
ماجرائے شوق کی بے باکیاں ان پر نثار
ہائے وہ آنکھیں جو ضبطِ غم میں گریاں ہو گئیں
چھا گئیں دشواریوں پر میری سہل انگاریاں
مشکلوں کا اک خیال آیا کہ آساں ہو گئیں
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست