ناوکِ کور کماں کس کی طرف دیکھتا ہے

عرفان صدیقی


اے مرے طائرِ جاں کس کی طرف دیکھتا ہے
ناوکِ کور کماں کس کی طرف دیکھتا ہے
ہم کسے اپنے سوا عشق میں گردانتے ہیں
دل بے مایہ یہاں کس کی طرف دیکھتا ہے
بانوئے ناقہ نشیں دیکھ کے چہرہ تیرا
بندۂ خاک نشاں کس کی طرف دیکھتا ہے
میں تو اک منظرِ رفتہ ہوں مجھے کیا معلوم
اب جہانِ گزراں کس کی طرف دیکھتا ہے
ہم سب آئینہ در آئینہ در آئینہ ہیں
کیا خبر کون‘ کہاں‘ کس کی طرف دیکھتا ہے
اس کے بسمل ہیں سو ہم دیکھتے ہیں اس کی طرف
وہ شہِ چارہ گراں کس کی طرف دیکھتا ہے
فہرست