صبح بلبلِ کی روش ہمدم افغاں دیکھا

مصطفٰی خان شیفتہ


رات واں گل کی طرح سے جسے خنداں دیکھا
صبح بلبلِ کی روش ہمدم افغاں دیکھا
کوئی بے جانِ جہاں میں نہیں جیتا لیکن
تیرے مہجور کو جیتے ہوئے بے جاں دیکھا
میں نے کیا جانیے کس ذوق سے دی جاں دمِ قتل
کہ بہت اس سے ستم گر کو پشیماں دیکھا
نہ ہوا یہ کہ کبھی اپنے گلے پر دیکھیں
یوں تو سو بار ترا خنجرِ براں دیکھا
اس طرف کو بھی نگہ تا سرِ مژگاں آئی
بارے کچھ کچھ اثرِ گریۂِ پنہاں دیکھا
پانی پانی ہوئے مرقد پہ مرے آ کے وہ جب
شمع کو نعش پہ پروانے کی، گریاں دیکھا
غم غلط کرنے کو احباب ہمیں جانب باغ
لے گئے کل تو عجب رنگِ گلستاں دیکھا
ورد میں خاصیتِ اخگرِ سوزاں پائی
نسترن میں اثرِ خارِ مغیلاں دیکھا
ایک نالے میں ستم ہائے فلک سے چھوٹے
جس کو دشوار سمجھتے تھے سو آساں دیکھا
کون کہتا ہے کہ ظلمت میں کم آتا ہے نظر
جو نہ دیکھا تھا سو ہم نے شبِ ہجراں دیکھا
شیفتہ زلفِ پری رو کا پڑا سایہ کہیں
میں نے جب آپ کو دیکھا تو پریشاں دیکھا
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست