وہ مہرباں نہیں تو کوئی مہرباں نہیں

مصطفٰی خان شیفتہ


دل کا گلہ فلک کی شکایت یہاں نہیں
وہ مہرباں نہیں تو کوئی مہرباں نہیں
ہم آج تک چھپاتے ہیں یاروں سے رازِ عشق
حالاں کہ دشمنوں سے یہ قصہ نہاں نہیں
زیبا نہیں ہے دوست سے کرنا معاملہ
کچھ ورنہ ناز جان کے بدلے گراں نہیں
ہم زمرۂِ رقیب میں مل کر وہاں گئے
جب شوق رہ نما ہو کوئی پاسباں نہیں
آشفتہ مثل باد ہوں بیتاب مثلِ برق
کیونکر معین چرخ تری شوخیاں نہیں
ہم آپ پر نثار کریں کائنات کو
پر کیا کریں بساط میں جز نیم جاں نہیں
سامان وجد فتنۂِ محشر کو دے دیا
وہ خاک پر ہماری جو دامن کشاں نہیں
کیوں ہیں ندیمِ دوست سفارش میں غیر کی
کیا ہم کو ان سے رسم و رہ ارمغاں نہیں
اک حال خوش میں بھول گئے کائنات کو
اب ہم وہاں ہیں مطرب و ساقی جہاں نہیں
کس کس پہ رشک کیجیے کس کس کو رویے
کس دن وہ جلوہ آفت صدخانماں نہیں
کیوں یہ ہجوم شور و شغب ہے نشور میں
ایسا تو شیفتہؔ ہمیں خوابِ گراں نہیں
فہرست