وہ حسن کہ خورشید کے عہدے سے بر آیا

مصطفٰی خان شیفتہ


اس بزم میں ہر ایک سے کم تر نظر آیا
وہ حسن کہ خورشید کے عہدے سے بر آیا
بے فائدہ ہے وہم کہ کیوں بے خبر آیا
اس راہ سے جاتا تھا ہمارے بھی گھر آیا
کچھ دور نہیں ان سے کہ نیرنج بتا دیں
کیا فائدہ گر آنکھ سے لختِ جگر آیا
گو کچھ نہ کہا، پر ہوئے دل میں متاثر
شکوہ جو زباں پر مری آشفتہ تر آیا
بے طاقتی شوق سے میں اٹھ ہی چکا تھا
ناگاہ وہ بے تاب مری قبر پر آیا
بے قدر ہے مفلس شجرِ خشک کی مانند
یاں درہم و دینار میں برگ و ثمر آیا
حالِ دلِ صد چاک پہ کٹتا ہے کلیجا
ہر پارہ اک الماس کا ٹکڑا نظر آیا
دیکھے کہ جدائی میں ہے کیا حال، وہ بدظن
اس واسطے شب گھر میں مرے بے خبر آیا
کیا دیر ہے اے ساقی گلفام سحر ہے
کیا عذر ہے اے زاہدِ خشک، ابرِ تر آیا
احوال میں ہیں شیفتہ کی مختلف اقوال
پوچھیں گے ، وہاں سے جو کوئی معتبر آیا
فہرست