مرزا غالب

منہ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منہ پر کھلا
اعتبارِ عشق کی خانہ خرابی دیکھنا
غیر نے کی آہ لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا
تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا
لکھتا ہوں اسدؔ سوزشِ دل سے سخنِ گرم
تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت
بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر در و دیوار
نگاہِ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار
ہجومِ گریہ کا سامان کب کیا میں نے
کہ گر پڑے نہ مرے پاؤں پر در و دیوار
وہ آ رہا مرے ہم سایہ میں، تو سائے سے
ہوئے فدا در و دیوار پر در و دیوار
گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر؟
جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے وگرنہ ہم
سر جائے یا رہے ، نہ رہیں پر کہے بغیر
غالب نہ کر حضور میں تو بار بار عرض
ظاہر ہے تیرا حال سب ان پر کہے بغیر
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں
مگر غبار ہوے پر ہوا اڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں
بارے اب اے ہوا! ہوسِ بال و پر گئی

امام بخش ناسخ


انشاء اللہ خان انشا


حیدر علی آتش


داغ دہلوی


شیخ ابراہیم ذوق


مصحفی غلام ہمدانی


مصطفٰی خان شیفتہ


مومن خان مومن


میر مہدی مجروح


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی


جون ایلیا

یہ خراباتیان خرد باختہ
صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے
لٹا دے نیند کے بستر پہ اے رات
میں دن بھر اپنی پلکوں پر رہا ہوں
ہو نہ سکا ہمیں کبھی اپنا خیال تک نصیب
نقش کسی خیال کا لوح خیال پر رہا
کوئی جنوں نہیں سودائیان صحرا کو
کہ جو عذاب بھی آئے وہ شہر پر آئے
وہی ناز و ادا وہی غمزے
سر بہ سر آپ پر گیا ہوں میں
آدمی وقت پر گیا ہو گا
وقت پہلے گزر گیا ہو گا
کسی سے عہد و پیماں کر نہ رہیو
تو اس بستی میں رہیو پر نہ رہیو
ہر اک حالت کے بیری ہیں یہ لمحے
کسی غم کے بھروسے پر نہ رہیو
ہم رہے پر نہیں رہے آباد
یاد کے گھر نہیں رہے آباد
ہم کہ اے دل سخن تھے سر تا پا
ہم لبوں پر نہیں رہے آباد
آزادگی میں شرط بھی ہے احتیاط کی
پرواز کا ہے اذن مگر پر سمیٹ لو
رکھتا نہیں ہے کوئی نگفتہ کا یاں حساب
جو کچھ ہے دل میں اس کو لبوں پر سمیٹ لو
ہم یہاں خود آئے ہیں لایا نہیں کوئی ہمیں
اور خدا کا ہم نے اپنے نام پر رکھا ہے نام
ہے اب تو ایک جال سکون ہمیشگی
پرواز کا تو ذکر ہی کیا پر بھی کچھ نہیں
یاراں تمہیں جو مجھ سے گلہ ہے تو کس لیے
مجھ کو تو اعتراض خدا پر بھی کچھ نہیں
گزرے گی جونؔ شہر میں رشتوں کے کس طرح
دل میں بھی کچھ نہیں ہے زباں پر بھی کچھ نہیں
کوہ و کمر میں ہم صفیر کچھ نہیں اب بجز ہوا
دیکھیو پلٹیو نہ آج شہر سے پر لیے بغیر

جگر مراد آبادی


خواجہ میر درد


قمر جلالوی


شکیب جلالی


عرفان صدیقی

نقشِ ظفر تھا لوحِ ازل پر لکھا ہوا
تلوار کاٹ سکتی تھی کیوں کر لکھا ہوا
تھا کمیں گاہ میں سناٹے کا عالم، لیکن
اک نیا رنگ یہ ٹوٹے ہوئے پر میں کیا تھا
کوئی اونچا نہیں اڑتا تھا، پھر بھی
کوئی بے بال و پر ایسا نہیں تھا
کچھ ہواؤں کا بھی اندازہ نہ تھا پہلے ہمیں
اور کچھ سر میں غرورِ بال و پر جیسا بھی تھا
کل اس نے سیر کرائی نئے جہانوں کی
تو رنجِ نارسیِ بال و پر چلا بھی گیا
شاعری سے کوئی قاتل راہ پر آتا نہیں
اور ہم کو دوسرا کوئی ہنر آتا نہیں
خواب آسودگی بال و پر آنے کا نہیں
شام آنکھوں سے یہ کہتی ہے گھر آنے کا نہیں
تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دیے تھے تمہیں کیا خبر یا اخی
کتنے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلنے میں یہ بال و پر یا اخی
گرا تو کوئی جزیرہ نہ تھا سمندر میں
کہ پانیوں پہ کھلے بھی بہت تھے پر میرے
خیالوں کو بیاں کے دائروں میں لاؤ گے کیوں کر
کمندیں بھاگتی پرچھائیوں پر کیسے پھینکو گے
فضا میں زندہ ہے پچھلی اڑان کی آواز
مری شکستگی بال و پر سلام تجھے
خلاء میں کیا نظر آتے ، زمین پر نہیں آئے
ستارہ جو کو فرشتے کہیں نظر نہیں آئے

مجید امجد