نگاہوں سے جو چپکے ہیں وہ منظر کیسے پھینکو گے

عرفان صدیقی


ہر اک تصویر کو کھڑکی سے باہر کیسے پھینکو گے
نگاہوں سے جو چپکے ہیں وہ منظر کیسے پھینکو گے
جھٹک کر پھینک دو گے چند ان چاہے خیالوں کو
مگر کاندھوں پہ یہ رکھا ہوا سر کیسے پھینکو گے
اگر اتنا ڈروگے اپنے سر پر چوٹ لگنے سے
تو پھر تم آم کے پیڑوں پہ پتھر کیسے پھینکو گے
خیالوں کو بیاں کے دائروں میں لاؤ گے کیوں کر
کمندیں بھاگتی پرچھائیوں پر کیسے پھینکو گے
کبھی سچائیوں کی دھوپ میں بیٹھے نہیں اب تک
تم اپنے سر سے یہ خوابوں کی چادر کیسے پھینکو گے
تو پھر کیوں اس کو آنکھوں میں سجا کر رکھ نہیں لیتے
تم اس بے کار دنیا کو اٹھا کر کیسے پھینکو گے
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست