مرزا غالب


امام بخش ناسخ


انشاء اللہ خان انشا


بہادر شاہ ظفر


حیدر علی آتش


داغ دہلوی


شیخ ابراہیم ذوق


مصحفی غلام ہمدانی


مصطفٰی خان شیفتہ


مومن خان مومن


فیض احمد فیض


مرزا رفیع سودا


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی


جون ایلیا


جگر مراد آبادی


خواجہ میر درد


سراج الدین ظفر


قمر جلالوی


شکیب جلالی


عرفان صدیقی

یہ فاصلوں کے کڑے کوس مملکت میری
مرے غبار، مرے تاجِ سر سلام تجھے
یہ شہرِ ذات بہت ہے ‘ اگر بنایا جائے
تو کائنات کو کیوں دردِ سر بنایا جائے
یہ کرشمہ کبھی ہوتے نہیں دیکھا ہم نے
سر بھی شانوں پہ رہے معرکہ سر بھی ہو جائے
ہم نے کہا نہ تھا کہ ہیں مشکل کشا علی
وہ معرکے جو بس کے نہ تھے سر بھی ہو گئے
میرا میدان غزل نیزہ و سر کا ٹھہرا
رہنے والا جو شہیدوں کے نگر کا ٹھہرا
آج تک گریہ کناں ہے اسی حسرت میں فرات
کاش ہوتا در شبیر پہ سر پانی کا
کوئی دشوار نہیں شیوۂ شوریدہ سری
ہاں اگر ہے تو ذرا خوف ہے سر جانے کا
خواب میں بھی میری زنجیرِ سفر کا جاگنا
آنکھ کیا لگنا کہ اک سودائے سر کا جاگنا
کچھ تو چٹانوں سے نکلے جوئے خوں یا جوئے شیر
پتھروں کے بیچ رہنا ہے تو سر کیا دیکھنا
تم جو کچھ چاہو وہ تاریخ میں تحریر کرو
یہ تو نیزہ ہی سمجھتا ہے کہ سر میں کیا تھا
یہ آسودہ جو ہے ‘ میری ہوس ہے
مرا سودائے سر ایسا نہیں تھا
کون مانے گا کہ اس ترکِ طلب کے باوجود
پہلے ہم لوگوں میں کچھ سودائے سر جیسا بھی تھا
اک ذرا خم ہو کے میں پیش ستم گر بچ گیا
میری پگڑی گر گئی لیکن مرا سر بچ گیا
پھر کوئی خیمہ کسی اذنِ عقوبت کا شکار
پھر کوئی نیزہ کسی دولتِ سر کا وارث
روشن ہوا یہ شام کے منظر کو دیکھ کر
کرتا ہے سرفراز خدا سر کو دیکھ کر
مجھے کھنچی ہوئی تلوار سونپنے والے
میں کیا کروں کہ طرفدار سر کا میں بھی ہوں
وہی عصا کا خدا ہے ‘ وہی سمندر کا
وہ مرحلہ کوئی دے گا تو سر کروں گا میں
خانۂ درد ترے خاک بہ سر آ گئے ہیں
اب تو پہچان کہ ہم شام کو گھر آ گئے ہیں
شہسوارو، اپنے خوں میں ڈوب جانا شرط ہے
ورنہ اس میدان میں نیزے پہ سر آتا نہیں
پائے طلب کنارِ زمیں تک پہنچ گئے
میں رک گیا تو وحشتِ سر نے کہا نہیں
اپنے بھولے ہوئے منظر کی طرف لوٹ چلو
گم شدہ تیرو، کسی سر کی طرف لوٹ چلو
کوئی کنیز اہلِ حرم بے ردا نہ ہو
ان پاک بیبیوں کے کھلے سر کا واسطہ
حریف تیغِ ستم گر تو کر دیا ہے تجھے
اب اور مجھ سے تو کیا چاہتا ہے سر میرے
جھٹک کر پھینک دو گے چند ان چاہے خیالوں کو
مگر کاندھوں پہ یہ رکھا ہوا سر کیسے پھینکو گے
ندی سے پھول نہ گنجِ گہر نکلتا ہے
جو طشتِ موج اٹھاتا ہوں سر نکلتا ہے
نیند سے پہلے بہت شور مچاتے ہیں خیال
شب کو ہنگامۂ سر ختم کہاں ہوتا ہے
کھیل سب آنکھوں کا ہے سارا ہنر آنکھوں کا ہے
پھر بھی دنیا میں خسارہ سر بہ سر آنکھوں کا ہے
بس اپنا اپنا فرض ادا کر رہے ہیں لوگ
ورنہ سناں بھی اس کی ہے سر بھی اسی کا ہے