الفت تری اس قدر بہت ہے

مصحفی غلام ہمدانی


تو دیکھے تو اک نظر بہت ہے
الفت تری اس قدر بہت ہے
اے دل تو نہ کر ہماری خصمی
بس اک دلِ کینہ ور بہت ہے
ٹک اور بھی صبر کر کہ مجھ کو
لکھنا ابھی نامہ بر بہت ہے
ہم آبلہ بن رہے ہیں ہم کو
اک جنبش نیشتر بہت ہے
شیشے میں ترے شراب ساقی
ٹک ہم کو بھی دے اگر بہت ہے
اس رنگ سے اپنے گھر نہ جانا
دامن ترا خوں میں تر بہت ہے
افسانۂِ عشق کس سے کہیے
اس بات میں دردِ سر بہت ہے
مجھ کو نہیں آہ کا بھروسا
یعنی کہ یہ بے اثر بہت ہے
اس دل کی تو تو خبر رکھا کر
یہ آپ سے بے خبر بہت ہے
کیا بگڑی ہے آج مصحفیؔ سے
اس کوچے میں شور و شر بہت ہے
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست