مرزا غالب


امام بخش ناسخ


انشاء اللہ خان انشا


بہادر شاہ ظفر


حیدر علی آتش


داغ دہلوی


شیخ ابراہیم ذوق


مصحفی غلام ہمدانی


مصطفٰی خان شیفتہ


مومن خان مومن


فیض احمد فیض


مرزا رفیع سودا


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی


جون ایلیا


جگر مراد آبادی


خواجہ میر درد


قمر جلالوی


شکیب جلالی


عرفان صدیقی

طوفاں میں تا بہ حدِ نظر کچھ نہیں بچا
اب دیکھنے کو دیدۂ تر، کچھ نہیں بچا
موجِ خوں بھرتی رہی دشت کی تصویر میں رنگ
کبھی دریا نہ مرے دیدۂ تر کا ٹھہرا
خشک ہوتا ہی نہیں دیدۂ تر پانی کا
یم بہ یم آج بھی جاری ہے سفر پانی کا
کوئی حرفِ دعا میرے لیے پتوار بن جائے
بچا لے ڈوبنے سے چشمِ تر ایسا نہیں ہو گا
پھر ہواؤں سے کسی امکان کی ملنا نوید
پھر لہو میں آرزوئے تازہ تر کا جاگنا
دستِ قاتل کیا کٹے اے چشمِ تر کیا دیکھنا
آج کے اخبار میں کل کی خبر کیا دیکھنا
مرے خوابوں کے دریا خشک ہو جائیں
نہیں‘ اے چشمِ تر‘ ایسا نہیں تھا
دل کی بے رنگی سے بہتر تھی لہو کی ایک بوند
وہ بھی اک سرمایہ تھا اے چشمِ تر جیسا بھی تھا
اب ڈھونڈ اور قدرشناسان رنگ و بو
ہم نے یہ کام اے گلِ تر بند کر دیا
کب مرے قریۂ ظلمات پہ ہو گا روشن
میرا مہتاب‘ مرے دیدۂ تر کا وارث
کسی نے بند کیا ہم پہ اپنے نام کا رزق
تو ہم بھی بھول گئے خشک و تر کے نام تمام
اب تو باقی ہے یہی سمتِ سفر چلتا ہوں
آج میں بھی طرف دیدۂ تر چلتا ہوں
تمہارے زخموں سے میرا بھی ایک رشتہ ہے
لہو نہیں ہوں مگر چشمِ تر کا میں بھی ہوں
ہم نے دیکھا ہی تھا دنیا کو ابھی اس کے بغیر
لیجیے بیچ میں پھر دیدۂ تر آ گئے ہیں
تو شہریار آب و نمِ شاخسار کا
میرے لیے بھی کوئی گلِ تر، علیؑ علیؑ
کیا ابرِ گریزاں سے شکایت ہو کہ دل میں
صحرا ہی کچھ ایسا ہے کہ تر ہم نہیں ہوتے
ہوئی ہے شاخ نوا تازہ تر، سلام تجھے
مسافتوں کی ہوائے سحر سلام تجھے
جہانِ نو تھا کہ مقتل ہمیں نہیں معلوم
جو اس گلی سے گئے تھے زیادہ تر نہیں آئے