آج میں بھی طرف دیدۂ تر چلتا ہوں

عرفان صدیقی


اب تو باقی ہے یہی سمتِ سفر چلتا ہوں
آج میں بھی طرف دیدۂ تر چلتا ہوں
سوچنا کیا ہے اگر دشت زمیں ختم ہوا
میرے دل میں بھی تو صحرا ہے ادھر چلتا ہوں
آخری رنگ ہواؤں سے بنا ہے کب تک
رخصت اے موسم بے رنگ و ثمر، چلتا ہوں
راہ میں چھوٹتے جاتے ہیں ملاقات کے بوجھ
جانے کیوں لے کے یہ سامانِ سفر چلتا ہوں
گھر سے نکلا تھا کہ صحرا کا تماشا دیکھوں
جب یہاں بھی وہی نقشہ ہے تو گھر چلتا ہوں
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست