مرزا غالب


امام بخش ناسخ


انشاء اللہ خان انشا


بہادر شاہ ظفر


داغ دہلوی


شیخ ابراہیم ذوق


مصحفی غلام ہمدانی

رہتے ہیں کیا بھلا واں آفت زدے ہی سارے
اس کوچے میں کسی کا آباد گھر نہ دیکھا
لوگ کہیں گے تمہیں ہرجائی ہے
دل میں اک عالم کے نہ گھر کیجیے
مصحفیؔ ہم تو ترے ملنے کو آئے کئی بار
اے دوانے تو کسی وقت بھی گھر ہوتا ہے
ہوا ہوں آہ میں جس پر غرور پر عاشق
کنیز اس کی کبھی میرے گھر نہیں آتی
شب شوق لے گیا تھا ہمیں اس کے گھر تلک
پر غش سا آ گیا ووہیں پہنچے جو در تلک
یارب آباد ہوویں گھر سب کے
پھریں خط لے کے نامہ بر سب کے
میرے سوز جنوں کی دہشت سے
بند رہتے ہیں دن کو گھر سب کے
اب انیس ہے نہ جلیس ہے نہ رفیق ہے نہ شفیق ہے
ہم اکیلے گھر میں پڑے رہے سبھی لوگ گھر کے چلے گئے
بیٹھا رہوں کہاں تلک اس در پہ مصحفیؔ
اب آئی شام ہونے کو گھر جاؤں کیا کروں
کیا ہے بخت نے جس دن سے ہم کو اس کا ہم سایہ
ہم اس رشک پری کو اپنے گھر سے دیکھ لیتے ہیں
اس کے در پر ہی جو رہتا ہوں میں دن رات پڑا
مجھ سے جھنجھلا کے کہے ہے ترے گھر ہے کہ نہیں
دلی ہوئی ہے ویراں سونے کھنڈر پڑے ہیں
ویران ہیں محلے سنسان گھر پڑے ہیں

مصطفٰی خان شیفتہ


مومن خان مومن


فیض احمد فیض


مرزا رفیع سودا


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی


جون ایلیا

سارے رشتے تباہ کر آیا
دلِ برباد اپنے گھر آیا
اے کوئے یار تیرے زمانے گزر گئے
جو اپنے گھر سے آئے تھے وہ اپنے گھر گئے
ذرا اک سانس روکا تو لگا یوں
کہ اتنی دیر اپنے گھر رہا ہوں
کبھی گئے تھے میاں جو خبر کے صحرا کی
وہ آئے بھی تو بگولوں کے ساتھ گھر آئے
کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں
شام تیرے دیار میں آخر
کوئی تو اپنے گھر گیا ہو گا
زخمِ امید بھر گیا کب کا
قیس تو اپنے گھر گیا کب کا
کہیں چھپ جاؤٔ نہ خانوں میں جا کر
شب فتنہ ہے اپنے گھر نہ رہیو
باہر گزار دی کبھی اندر بھی آئیں گے
ہم سے یہ پوچھنا کبھی ہم گھر بھی آئیں گے
آشفتگی کی فصل کا آغاز ہے ابھی
آشفتگاں پلٹ کے ابھی گھر بھی آئیں گے
در و دیوار تو باہر کے ہیں ڈھانے والے
چاہے رہتا نہیں میں پر مرا گھر ہے مجھ میں
دل کو دنیا کا ہے سفر درپیش
اور چاروں طرف ہے گھر درپیش
ہم رہے پر نہیں رہے آباد
یاد کے گھر نہیں رہے آباد
دل نے کیا ہے قصدِ سفر گھر سمیٹ لو
جانا ہے اس دیار سے منظر سمیٹ لو
مری سن نہ رکھ اپنے پہلو میں دل
اسے تو کسی اور کے گھر چھپا
قصہ کشور کا نہیں کوشک کا ہے کہ ہے
دروازہ سب کے پاس ہے گھر کس کے پاس ہے
اس کا سخن بھی جا سے ہے اور وہ یہ کہ جونؔ تم
شہرۂ شہر ہو تو کیا شہر میں گھر لیے بغیر

جگر مراد آبادی


خواجہ میر درد


قمر جلالوی

کریں گے شکوۂ جورو جفا دل کھول کر اپنا
کہ یہ میدان محشر ہے نہ گھر ان کا نہ گھر اپنا
مکاں دیکھا کیے مڑ مڑ کے تا حدِ نظر اپنا
جو بس چلتا تو لے آتے قفس میں گھر کا گھر اپنا
بہے جب آنکھ سے آنسو بڑھا سوزِ جگر اپنا
ہمیشہ مینہ پرستے میں جلا کرتا ہے گھر اپنا
یہ شب کا خواب یا رب فصلِ گل میں سچ نہ ہو جائے
قفس کے سامنے جلتے ہوئے دیکھا ہے گھر اپنا
اب تو چپ ہو باغ میں نالوں سے محشر ہو گیا
یہ بھی اے بلبل کوئی صیاد کا گھر ہو گیا
آشیانے کا کیا بتائیں کیا پتہ خانہ بدوش
چار تنکے رکھ لیے جس شاخ پر گھر ہو گیا
دیکھو پھر دیکھ لو دیوار کی در کی صورت
تم کہیں بھول نہ جاؤ مرے گھر کی صورت
دل کو خبر نہیں ہے اور درد ہے جگر میں
ہمسایہ سو رہا ہے بے فکر اپنے گھر میں
اتنا سبک نہ کیجیے احباب کی نظر میں
اٹھتی ہے میری میت بیٹھے ہیں آپ گھر میں
یہ تو نہیں آہ میں کچھ بھی اثر نہ ہو
ممکن آج رات کوئی اپنے گھر نہ ہو
مہماں ہے کبھی میری کبھی غیر کے گھر کی
تو اے شبِ فرقت ادھر کی نہ ادھر کی
یہ وقت وہ ہے غیر بھی اٹھ کر نہیں جاتے
آنکھوں میں مرا دم ہے تمہیں سوجھی ہے گھر کی
قیدِ قفس سے چھٹ کے پہنچ جاؤں گھر ابھی
اتنے کہاں ہوئے ہیں مرے بال و پر ابھی
مجھے صورت دیکھا کر چاہے پھر دشمن کے گھر ہوتے
دم آنکھو میں نہ رک جاتا اگر پیشِ نظر ہوتے
چھوڑ کر بیمار کو یہ کیا قیامت کر چلے
دم نکلنے بھی نہ پایا آپ اپنے گھر چلے
اس قفس کو چھوڑ دوں کیونکر کہ جس کے واسطے
میں نے اے صیاد اپنے گھر کو گھر سمجھا نہیں
غمِ تبدیلی گلشن کہاں تک پھر یہ گلشن ہے
قفس بھی ہو تو بن جاتا ہے گھر آہستہ آہستہ
دل کو وہ کیا دیکھتے سوزِ جگر دیکھا کیے
لگ رہی تھی آگ جس گھر میں وہ گھر دیکھا کیے
بس ہی کیا تھا بے زباں کہتے ہی کیا صیاد سے
یاس کی نظروں سے مڑ کر اپنا گھر دیکھا کیے
بجلی جو شاخ، گل پہ گری اس کا غم نہیں
لیکن وہ اک غریب کا گھر کچھ نہ پوچھیے
تنکے وہ نرم نرم سے پھولوں کی چھاؤں میں
کیسا بنا تھا باغ میں گھر کچھ نہ پوچھیے

شکیب جلالی


عرفان صدیقی

خرابہ ایک دن بن جائے گھر ایسا نہیں ہو گا
اچانک جی اٹھیں وہ بام و در ایسا نہیں ہو گا
اگلے دن کیا ہونے والا تھا کہ اب تک یاد ہے
انتظارِ صبح میں وہ سارے گھر کا جاگنا
اپنے آنگن ہی میں تھا، راہ گزر میں کیا تھا
ایسا تنہا تھا میں باہر بھی کہ گھر میں کیا تھا
خرابہ تھا مگر ایسا نہیں تھا
عزیزو، میرا گھر ایسا نہیں تھا
تھا کہیں اک حاصلِ رنجِ سفر جیسا بھی تھا
ان خرابوں سے تو اچھا تھا وہ گھر جیسا بھی تھا
اس سے بچھڑ کے باب ہنر بند کر دیا
ہم جس میں جی رہے تھے وہ گھر بند کر دیا
زندہ رہنے کی خوشی کس لاش سے مل کر مناؤں
کس کھنڈر کو جا کے مژدہ دوں مرا گھر بچ گیا
وگرنہ تنگ نہ تھی عشقِ پر خدا کی زمین
کہا تھا اس نے تو میں اپنے گھر چلا بھی گیا
ایک آسیب ہے ٹوٹے ہوئے گھر کا وارث
کس کو آواز لگاتا ہے کھنڈر کا وارث
جسم کی رعنائیوں تک خواہشوں کی بھیڑ ہے
یہ تماشا ختم ہو جائے تو گھر جائیں گے لوگ
گھر سے نکلا تھا کہ صحرا کا تماشا دیکھوں
جب یہاں بھی وہی نقشہ ہے تو گھر چلتا ہوں
یہ تیز روشنیوں کا دیار ہے ‘ ورنہ
چراغ تو کسی تاریک گھر کا میں بھی ہوں
آندھی میں چھوڑتے ہیں کہیں آشیاں پر ند
ہم اس ہوا کے خوف سے گھر کیسے چھوڑ دیں
کوئی دعا ہوں‘ کسی اور سے معاملہ ہے
صدا نہیں کہ سماعت میں گھر کروں گا میں
خانۂ درد ترے خاک بہ سر آ گئے ہیں
اب تو پہچان کہ ہم شام کو گھر آ گئے ہیں
خواب آسودگی بال و پر آنے کا نہیں
شام آنکھوں سے یہ کہتی ہے گھر آنے کا نہیں
احوال اس چراغ کا گھر نے کہا نہیں
دستک جو دی تو سایۂ در نے کہا نہیں
تم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہو آزاد
شام ہونے کو ہے ، اب گھر کی طرف لوٹ چلو
اہلِ وفا سے شہر و بیاباں بسے رہیں
آل عبا کے اجڑے ہوئے گھر کا واسطہ
تھک چکے دونوں تماشہ گاہِ عالم دیکھ کر
آؤ سو جائیں کہ ان آنکھوں میں گھر آنکھوں کا ہے
مجرم ہوں اور خرابۂ جاں میں اماں نہیں
اب میں کہاں چھپوں کہ یہ گھر بھی اسی کا ہے
ہو چکا جو کچھ وہی بارِ دگر کرنا مجھے
پانیوں میں راستہ شعلوں میں گھر کرنا مجھے
اداس شام اکیلی کھڑی ہے چوکھٹ پر
بہت سے صبح کے نکلے ہوئے بھی گھر نہیں آئے
سنا یہ ہے کہ وہ دریا اتر گیا آخر
تو آؤ‘ پھر اسی ریتی پہ گھر بنایا جائے
کسی وحشت نے بنایا ہے ہمیں خانہ بدوش
ہم جو صحرا ہی میں رہ جائیں تو گھر بھی ہو جائے