جو ہو گی عمر بھر کی راہ تو دم بھر میں آویں گے

بہادر شاہ ظفر


کریں گے قصد ہم جس دم تمہارے گھر میں آویں گے
جو ہو گی عمر بھر کی راہ تو دم بھر میں آویں گے
اگر ہاتھوں سے اس شیریں ادا کے ذبح ہوں گے ہم
تو شربت کے سے گھونٹ آب دمِ خنجر میں آویں گے
یہی گر جوشِ گریہ ہے تو بہہ کر ساتھ اشکوں کے
ہزاروں پارۂ دل میرے چشمِ تر میں آویں گے
گر اس قید بلا سے اب کی چھوٹیں گے تو پھر ہرگز
نہ ہم دام فریب شوخ غارت گر میں آویں گے
نہ جاتے گرچہ مر جاتے جو ہم معلوم کر جاتے
کہ اتنا تنگ جا کر کوچہ دلبر میں آویں گے
گریباں چاک لاکھوں ہاتھ سے اس مہر طلعت کے
برنگ صبح محشر عرصۂِ محشر میں آویں گے
جو سرگردانی اپنی تیرے دیوانے دکھائیں گے
تو پھر کیا کیا بگولے دشت کے چکر میں آویں گے
ظفرؔ اپنا کرشمہ گر دکھایا چشمِ ساقی نے
تماشے جامِ جم کے سب نظر ساغر میں آویں گے
فہرست