ورنہ ممکن ہے مری رات بسر بھی ہو جائے

عرفان صدیقی


اب ضیابار وہ مہتاب ادھر بھی ہو جائے
ورنہ ممکن ہے مری رات بسر بھی ہو جائے
کسی وحشت نے بنایا ہے ہمیں خانہ بدوش
ہم جو صحرا ہی میں رہ جائیں تو گھر بھی ہو جائے
ریت میں پھول کھلیں، سنگ سے چشمہ پھوٹے
زندگی اس کا اشارہ ہے جدھر بھی ہو جائے
یہ کرشمہ کبھی ہوتے نہیں دیکھا ہم نے
سر بھی شانوں پہ رہے معرکہ سر بھی ہو جائے
پاؤں پتھر ہوں تو کیا وحشت سرکا حاصل
فرض کر لیجیے دیوار میں در بھی ہو جائے
فہرست