مرزا غالب


امام بخش ناسخ


انشاء اللہ خان انشا


حیدر علی آتش


داغ دہلوی


مصحفی غلام ہمدانی


مصطفٰی خان شیفتہ


مومن خان مومن


میر مہدی مجروح


فیض احمد فیض


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی


جون ایلیا


جگر مراد آبادی


عبدالحمید عدم


قمر جلالوی


شکیب جلالی


عرفان صدیقی

ہر شئے کو ایک سیل بلاخیز لے گیا
سودا نہ سر، چراغ نہ در، کچھ نہیں بچا
خرابہ ایک دن بن جائے گھر ایسا نہیں ہو گا
اچانک جی اٹھیں وہ بام و در ایسا نہیں ہو گا
آخری امید کا مہتاب جل بجھنے کے بعد
میرا سو جانا مرے دیوار و در کا جاگنا
ہم نے خود بن باس لینے کا کیا تھا فیصلہ
یار اب مڑ مڑ کے سوئے بام و در کیا دیکھنا
اندھیرا تھا مری گلیوں میں لیکن
پسِ دیوار و در ایسا نہیں تھا
اب تو یہ پرچھائیاں پہچان میں آتیں نہیں
ان میں اک چہرہ چراغِ بام و در جیسا بھی تھا
چاہیے کوئی نہ کوئی راستہ سیلاب کو
سرپھری دیوار آخر بہ گئی‘ در بچ گیا
اب آفتاب تو محور بدل نہیں سکتا
تو کیوں نہ زاویۂ بام و در بدل دیں ہم
رات دن سوچتے رہتے ہیں یہ زندانیِ ہجر
اس نے چاہا ہے تو دیوار میں در آ گئے ہیں
احوال اس چراغ کا گھر نے کہا نہیں
دستک جو دی تو سایۂ در نے کہا نہیں
شب گزیدہ دیاروں کے ناقہ سواروں میں مہتاب چہرہ تمہارا نہ تھا
خاک میں مل گئے راہ تکتے ہوئے سب خمیدہ کمر بام و در یا اخی
خبر نہیں ہے مرے گھر نہ آنے والے کو
کہ اس کے قد سے تو اونچے ہیں بام و در میرے
ذرا جو بند ہوں آنکھیں تو شب کے زنداں میں
عجیب سلسلۂ بام و در نکلتا ہے
بولتے بولتے ہو جاتے ہیں خاموش چراغ
سخنِ سایۂ در ختم کہاں ہوتا ہے
اپنے چاروں سمت دیواریں اٹھانا رات دن
رات دن پھر ساری دیواروں میں در کرنا مجھے
پاؤں پتھر ہوں تو کیا وحشت سرکا حاصل
فرض کر لیجیے دیوار میں در بھی ہو جائے