کہ یہ میدان محشر ہے نہ گھر ان کا نہ گھر اپنا

قمر جلالوی


کریں گے شکوۂ جورو جفا دل کھول کر اپنا
کہ یہ میدان محشر ہے نہ گھر ان کا نہ گھر اپنا
مکاں دیکھا کیے مڑ مڑ کے تا حدِ نظر اپنا
جو بس چلتا تو لے آتے قفس میں گھر کا گھر اپنا
بہے جب آنکھ سے آنسو بڑھا سوزِ جگر اپنا
ہمیشہ مینہ پرستے میں جلا کرتا ہے گھر اپنا
پسینہ، اشکِ حسرت، بے قراری، آخری ہچکی
اکٹھا کر رہا ہوں آج سامانِ سفر اپنا
یہ شب کا خواب یا رب فصلِ گل میں سچ نہ ہو جائے
قفس کے سامنے جلتے ہوئے دیکھا ہے گھر اپنا
دمِ آخر علاج سوزِ غم کہنے کی باتیں ہیں
مرا رستہ نہ روکیں راستہ لیں چارہ گر اپنا
نشاناتِ جبیں جوشِ عقیدت خود بتائیں گے
نہ پوچھو مجھ سے سجدے جا کے دیکھو سنگِ در اپنا
جوابِ خط کا ان کے سامنے کب ہوش رہتا ہے
بتاتے ہیں پتہ میری بجائے نامہ بر اپنا
مجھ اے قبر دنیا چین سے رہنے نہیں دیتی
چلا آیا ہوں اتنی بات پر گھر چھوڑ کر اپنا
شکن آلود بستر، ہر شکن پر خون کے دھبے
یہ حالِ شامِ غم لکھا ہے ہم نے تا سحر اپنا
یہی تیرِ نظر ہیں مرے دل میں حسینوں کے
جو پہچانو تو لو پہچان لو تیرِ نظر اپنا
قمر ان کو نہ آنا تھا نہ آئے صبح ہو نے تک
شبِ وعدہ سجاتے ہی رہے گھر رات بھر اپنا
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست