مرزا غالب


انشاء اللہ خان انشا


بہادر شاہ ظفر


حیدر علی آتش


داغ دہلوی


شیخ ابراہیم ذوق

وہ اپنی برشِ تیغ نظر کو دیکھتے ہیں
ہم ان کو دیکھتے ہیں اور جگر کو دیکھتے ہیں
جب اپنے گریہ و سوزِ جگر کو دیکھتے ہیں
سلگتی آگ میں ہم خشک و تر کو دیکھتے ہیں
رفیق جب مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں
تو چارہ گر انہیں وہ چارہ گر کو دیکھتے ہیں
زخمی ہوں ترے ناوک دزدیدہ نظر سے
جانے کا نہیں چور مرے زخمِ جگر سے
نالوں کے اثر سے مرے پھوڑا سا ہے پکتا
کیوں ریم سدا نکلے نہ آہن کے جگر سے
لذت ناوک غم ذوقؔ سے ہو پوچھتے کیا
لب پڑے چاٹتے ہیں زخمِ جگر دیکھتے ہو
کہتے سنتے نہیں کچھ ہم تو شبِ ہجر میں پر
نالۂِ دل کا جواب آہِ جگر دیتی ہے
نخل مژگاں سے ہے کیا جانیے کیا چشم ثمر
چشم پانی کی جگہ خونِ جگر دیتی ہے
ہے دردِ دل میں گر نہیں ہمدرد میرے پاس
دل سوز کوئی گر نہیں سوزِ جگر تو ہے
تربت پہ دل جلوں کی نہیں گر چراغ و گل
سینے میں سوزشِ دل و داغِ جگر تو ہے
اے ذوقؔ وقت نالے کے رکھ لے جگر پہ ہاتھ
ورنہ جگر کو روئے گا تو دھر کے سر پہ ہاتھ
جوں پنج شاخہ تو نہ جلا انگلیاں طبیب
رکھ رکھ کے نبض عاشق تفتہ جگر پہ ہاتھ

مصحفی غلام ہمدانی


مصطفٰی خان شیفتہ


مومن خان مومن


میر مہدی مجروح


فیض احمد فیض


مرزا رفیع سودا


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی


جگر مراد آبادی


قمر جلالوی


شکیب جلالی


عرفان صدیقی