لمبا سفر ہے زادِ سفر کیسے چھوڑ دیں

عرفان صدیقی


راہ ستم میں سوزِ جگر کیسے چھوڑ دیں
لمبا سفر ہے زادِ سفر کیسے چھوڑ دیں
آندھی میں چھوڑتے ہیں کہیں آشیاں پر ند
ہم اس ہوا کے خوف سے گھر کیسے چھوڑ دیں
چندن کے بن میں سانپ نکلتے ہی رہتے ہیں
اس ڈر سے خوشبوؤں کے شجر کیسے چھوڑ دیں
جب کچھ نہ تھا تو ہم نے دیا تھا زمیں کو خوں
اب فصل پک چکی تو ثمر کیسے چھوڑ دیں
اے دل وہ دیکھ خیمہ، فردا قریب ہے
تجھ کو فصیلِ شب کے ادھر کیسے چھوڑ دیں
مانا کہ ایک عمر سے ٹھہری ہوئی ہے رات
انسان ہیں امیدِ سحر کیسے چھوڑ دیں
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست