انشاء اللہ خان انشا


شیخ ابراہیم ذوق


مصحفی غلام ہمدانی


میر انیس


باقی صدیقی


شکیب جلالی


عرفان صدیقی

کوئی مشکیزہ سر نیزہ علم ہوتا ہے
دیکھئے دشت میں لگتا ہے شجر پانی کا
میں تھک جاؤں تو بازوئے ہوا مجھ کو سہارا دے
گروں تو تھام لے شاخِ شجر ایسا نہیں ہو گا
بے نوا پتے بھی آیاتِ نمو پڑھتے ہوئے
تم نے دیکھا ہے کبھی شاخِ شجر کا جاگنا
اپنے ہی جوش نمو میں رقص کرنا چاہیے
راستہ جھونکوں کا اے شاخِ شجر کیا دیکھنا
سبز پتوں نے بہت راز چھپا رکھے تھے
رت جو بدلی تو یہ جانا کہ شجر میں کیا تھا
قفس میں جس طرح چپ ہے یہ طائر
سرِ شاخِ شجر ایسا نہیں تھا
رفتگاں وعدہ شکن ابرِ گریزاں کی طرح
اور اک طائرِ مجروح شجر کا وارث
وہ ایک خواب سہی سایۂ سراب سہی
یہ عمر بھر کی تھکن اک شجر کے نام تمام
نہ جانے کیسے گھنے جنگلوں کا دکھ ہے کہ آج
میں ایک سایۂ شاخِ شجر پہ راضی ہوں
کبھی ہوائے سرِ شاخسار ادھر بھی دیکھ
کہ برگِ زرد ہوں لیکن شجر کا میں بھی ہوں
چندن کے بن میں سانپ نکلتے ہی رہتے ہیں
اس ڈر سے خوشبوؤں کے شجر کیسے چھوڑ دیں
اجاڑ دشت میں کچھ زندگی تو پیدا ہو
یہ ایک چیخ یہاں بھی شجر کروں گا میں
اے پرندو‘ یاد کرتی ہے تمہیں پاگل ہوا
روز اک نوحہ سرِ شاخِ شجر سنتا ہوں میں
اتنا آسان نہیں فیصلۂ ترکِ سفر
پھر مری راہ میں دو چار شجر آ گئے ہیں
یہ بھی اچھا ہوا تم اس آشوب سے اپنے سرسبز بازو بچا لے گئے
یوں بھی کوئے زیاں میں لگانا ہی تھا ہم کو اپنے لہو کا شجر یا اخی
جھلس رہے ہیں کڑی دھوپ میں شجر میرے
برس رہا ہے کہاں ابرِ بے خبر میرے
اگلے موسم میں پھر آئیں گے نئے برگ و ثمر
اے ہوا بارِ شجر ختم کہاں ہوتا ہے
وہ خشک ٹہنیوں سے اگاتا ہے برگ و بار
موسم تمام اس کے شجر بھی اسی کا ہے