لشکروں کی آہٹیں تو رات بھر سنتا ہوں میں

عرفان صدیقی


دیکھیے کس صبح نصرت کی خبر سنتا ہوں میں
لشکروں کی آہٹیں تو رات بھر سنتا ہوں میں
خیر‘ اب میری فصیلِ شہر بھی کیا دور ہے
جنگلوں تک آ چکا پیکِ سحر سنتا ہوں میں
اے پرندو‘ یاد کرتی ہے تمہیں پاگل ہوا
روز اک نوحہ سرِ شاخِ شجر سنتا ہوں میں
کوئی نیزہ سرفرازی دے تو کچھ آئے یقیں
خشک ٹہنی پر بھی آتے ہیں ثمر سنتا ہوں میں
لاؤ، اس حرفِ دعا کا بادباں لیتا چلوں
سخت ہوتا ہے سمندر کا سفر سنتا ہوں میں
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست