مرزا غالب


بہادر شاہ ظفر


حیدر علی آتش


داغ دہلوی


شیخ ابراہیم ذوق


مصحفی غلام ہمدانی


مصطفٰی خان شیفتہ


مومن خان مومن


فیض احمد فیض


مرزا رفیع سودا


میر انیس


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی

آئنہ بن گئی شفق باقیؔ
یاد آیا دمِ سحر کیا کیا
آئی نہ پھر نظر کہیں جانے کدھر گئی
ان تک و ساتھ گردشِ شام و سحر گئی
تیرے بغیر رنگ نہ آیا بہار میں
اک اک کلی کے اس نسیمِ سحر گئی
تیرے بغیر رنگ نہ آیا بہار میں
اک اک کلی کے پاس نسیمِ سحر گئی
یوں پریشاں ہیں جیسے حاصل شب
آج کچھ اور ہے سحر کے سوا
وہ نظر بن گئی پیغام حیات
حلقہ شام و سحر یاد آیا
پھر بجھی شمع جلا دی ہم نے
جانے کیا وقتِ سحر یاد آیا
نظروں میں ابھر آتا ہے ہر ڈوبتا تارا
اس طرح گزرتی ہے مرے دل سے سحر اب
خواب بن بن کے بکھرتا ہے جہاں
شام سے تابہ سحر آنکھوں میں
چھا کر دلوں پہ ان کی نظر مطمئن نہیں
تاروں کو روند کر بھی سحر مطمئن نہیں
روز ایک تازہ حادثہ لائے کہاں سے زیست
مانا کہ دور شام و سحر مطمئن نہیں
تلخی شب نہ جس میں شامل ہو
کوئی ایسی سحر نہیں آتی
اک کرن اس طرف سے گزری ہے
ہو رہی ہے کہیں سحر ساقی
اک سحر ظلمت جہاں سے دور
کہہ سکیں ہم جسے سحر اپنی
چاند شب کے گلے میں اٹکا ہے
دور ہنگامہ سحر ہے ابھی
تاروں کا طلسم ٹوٹنے دو
انوار سحر بھی دیکھ لیں گے
ملتی ہے دل کو محفل انجم سے روشنی
آنکھوں میں شب کٹے تو سحر آئنہ بنے
جس کی ضیا ہو دسترس شامِ غم سے ڈور
دنیا کو ایک ایسی سحر کی تلاش ہے
غمزدہ غمزدہ، لرزاں لرزاں
لو شبِ غم کی سحر آئی ہے
ایک برسا ہوا بادل جیسے
لو شبِ غم کی سحر آئی ہے

جون ایلیا


جگر مراد آبادی


قمر جلالوی

شکن آلود بستر، ہر شکن پر خون کے دھبے
یہ حالِ شامِ غم لکھا ہے ہم نے تا سحر اپنا
خیر ہو آپ کے بیمارِ شبِ فرقت کی
آج اتری نظر آتی ہے سحر کی صورت
بیمار کو کیا خاک ہوا امیدِ سحر کی
وہ دو سانس کا دم اور یہ شب چار پہر کی
بیمار شبِ ہجر کی ہو خیر الٰہی
اتری ہوئی صورت نظر آتی ہے سحر کی
کیا ان آہوں سے شبِ غم مختصر ہو جائے گی
یہ سحر ہونے کی باتیں ہیں سحر ہو جائے گی؟
کس سے پوچھیں کے وہ میرے رات کے مرنے کا حال
تو بھی اب خاموش اے شمعِ سحر ہو جائے گی
بیمارِ ہجر آئی کہاں سے سحر ابھی
تارہ کوئی نہیں ہے ادھر سے ادھر ابھی
کیوں روتے روتے ہو گئے چپ شامِ غم قمر
تارے بتا رہے ہیں نہیں ہے سحر ابھی
قفس میں محوِ زاری کاہے کو شام و سحر ہوتے
اسیروں کے کسی قابل اگر صیاد پر ہوتے
علاجِ درد شامِ غم مسیحا ہو چکا جاؤ
مریضِ ہجر کی میت اٹھا دینا سحر ہوتے
مداوا جب دلِ صد چاک کا ہوتا شبِ فرقت
رفو کے واسطے تارے گریبانِ سحر ہوتے
قمر اللہ جانے کون تھا کیا تھا شبِ وعدہ
مثالِ درد جو پہلو سے اٹھا تھا سحر ہوتے
ہٹی زلف ان کے چہرے سے مگر آہستہ آہستہ
عیاں سورج ہوا وقتِ سحر آہستہ آہستہ
چٹک کر دی صدا غنچہ نے شاخِ گل کی جنبش پر
یہ گلشن ہے ذرا بادِ سحر آہستہ آہستہ
شام سے یہ تھی ترے بیمار کی حالت کہ لوگ
رات بھر اٹھ اٹھ کے آثار سحر دیکھا کیے
از شامِ ہجر تا بہ سحر کچھ نہ پوچھیے
کٹتے ہیں کیسے چار پہر کچھ نہ پوچھیے

شکیب جلالی


عرفان صدیقی