کیا کوئی ان کی خبر آئی ہے

باقی صدیقی


ڈوب کر نبض ابھر آئی ہے
کیا کوئی ان کی خبر آئی ہے
غمزدہ غمزدہ، لرزاں لرزاں
لو شبِ غم کی سحر آئی ہے
کیا کوئی اپنا ستم یاد آیا
آنکھ کیوں آپ کی بھر آئی ہے
کیا محبت سے تعلق تجھ کو
یہ بلا بھی مرے سر آئی ہے
آپ کے اٹھتے ہی ساری دنیا
لغزشیں کھاتی نظر آئی ہے
زندگی کتنی کٹھن راہوں سے
باتوں باتوں میں گزر آئی ہے
ٹمٹمانے لگے یادوں کے چراغ
شبِ غمِ دل میں اتر آئی ہے
ہر لرزتے ہوئے تارے میں ہمیں
اپنی تصویر نظر آئی ہے
ایک برسا ہوا بادل جیسے
لو شبِ غم کی سحر آئی ہے
میرے چہرے پہ تبسم کی طرح
اک شکن اور ابھر آئی ہے
میری قسمت میں نہیں کیا باقیؔ
جو خوشی غیر کے گھر آئی ہے
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مسدس مخبون محذوف مسکن
فہرست