روز کچھ بار سفر بڑھ جائے ہے

باقی صدیقی


روز دل پر اک نیا زخم آئے ہے
روز کچھ بار سفر بڑھ جائے ہے
کوئی تا حد تصور بھی نہیں
کون یہ زنجیرِ در کھڑکائے ہے
تیریافسانیمیں ہم شامل نہیں
بات بس اتنی سمجھ میں آئے ہے
وسعت دل تنگی جاں بن گئی
زخم اک تازیست پھیلا جائے ہے
جھوم جھوم اٹھی صبا کے دھیان میں
کتنی مشکل سے کلی مرجھائے ہے
زندگی ہر رنگ میں ہے اک فریب
آدمی ہرحال میں پچھتائے ہے
گاہ صحرا سے ملے پانی کی موج
گاہ دریا بھی ہمیں ترسائے ہے
میری صورت تو کبھی ایسی نہ تھی
آئنہ کیوں دیکھ کر شرمائے ہے
باقیؔ اس احساس کا کوئی علاج
دل وہیں خوش ہے جہاں گھبرائے ہے
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مسدس محذوف
فہرست