غزل سرا
ہماری کتابیں
شعراء
رابطہ
اکاؤنٹ
رجسٹر
لاگ اِن
غزل سرا کے بارے میں
تلاش
مرزا غالب
سادگی ہائے تمنا، یعنی
پھر وہ نیرنگِ نظر یاد آیا
بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر در و دیوار
نگاہِ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار
جو ہے تجھے سرِ سودائے انتظار، تو آ
کہ ہیں دکانِ متاعِ نظر در و دیوار
پرتوِ خور سے ، ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ، ایک عنایت کی نظر ہونے تک
مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
سوائے خونِ جگر، سو جگر میں خاک نہیں
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہلِ نظر گئی
تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے
حورانِ خلد میں تری صورت مگر ملے
انشاء اللہ خان انشا
جس طرف آنکھ اٹھا دیکھیے ہو جائے اثر
ہم تو رکھتے ہیں فقط اپنی نظر کا تکیہ
افسون نگہ سے تری اے ساقی بد مست
شیشہ میں ہوئی مثل پری اپنی نظر بند
نہیں یہ عشق تجلی ہے حق تعالٰی کی
جو راہ زینۂِ بام نظر سے اتری ہے
جلوۂِ یار ہے عزیز بہت
یہی اہلِ نظر کی پونجی ہے
بہادر شاہ ظفر
روبرو گر ہو گا یوسف اور تو آ جائے گا
اس کی جانب سے زلیخا کی نظر بٹ جائے گی
حیدر علی آتش
واہ رے اندھیر بہر روشنی شہر مصر
دیدۂِ یعقوب سے نورِ نظر جاتا رہا
انصاف کو ہیں دیدۂِ اہلِ نظر کھلے
پردہ اٹھا کہ پردۂِ شمس و قمر کھلے
داغ دہلوی
نگہ غیر پر بے اثر ہو گئی
تمہاری نظر کو نظر ہو گئی
نگاہ ستم میں کچھ ایجاد ہو
کہ یہ تو پرانی نظر ہو گئی
چشمِ نرگس کو دیکھ لیں پھر ہم
تم دکھا دو جو اک نظر آنکھیں
تماشائے عالم کی فرصت ہے کس کو
غنیمت ہے بس اک نظر دیکھ لینا
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
تکرار تجلی نے ترے جلوے میں کیوں کی
حیرت زدہ سب اہلِ نظر دیکھ رہے ہیں
تری چوری ہی سب میری نظر میں
چرا کر تو نظر جاتا کہاں ہے
دور تھی از بسکہ راہِ انتظار
تھک کے ہر پائے نظر دکھنے لگا
شیخ ابراہیم ذوق
وہ اپنی برشِ تیغ نظر کو دیکھتے ہیں
ہم ان کو دیکھتے ہیں اور جگر کو دیکھتے ہیں
زخمی ہوں ترے ناوک دزدیدہ نظر سے
جانے کا نہیں چور مرے زخمِ جگر سے
دم بہ دم زخم پہ اک زخم ہے دم لینے کی
مجھ کو فرصت نہیں وہ تیغ نظر دیتی ہے
نہیں پائے گا نشاں کوئی ہمارا ہرگز
ہم جہاں سے روش تیرِ نظر جائیں گے
ہم بھی دیکھیں گے کوئی اہلِ نظر ہے کہ نہیں
یاں سے جب ہم روش تیرِ نظر جائیں گے
قاتل یہ کیا ستم ہے کہ اٹھتا نہیں کبھی
آ کر مزار کشتۂِ تیغ نظر پہ ہاتھ
مصحفی غلام ہمدانی
دو دو پہر تک اس کے آگے کھڑا رہا میں
پر اس نے ضد کے مارے بھر کر نظر نہ دیکھا
تو دیکھے تو اک نظر بہت ہے
الفت تری اس قدر بہت ہے
دیکھتے ہو میری طرف کیا میاں
اپنی بھی صورت پہ نظر کیجیے
پھرتے ہیں جھروکوں کے تلے شاہ
اس کو میں امید یک نظر پر
رکھے ہے آئینہ کیا منہ پہ میرے اے ہم دم
کہ زندگی مجھے اپنی نظر نہیں آتی
دیکھا ہے میں جب سے وہ بت شوخ
پھر گئی ہے مری نظر خدا سے
صحرائے کشتگاں میں ترے کل گیا تھا میں
دیکھوں تو لالہ زار ہے حدِ نظر تلک
ایک عاشق پہ التفات نہ کر
حال پر رکھ میاں نظر سب کے
ہمارے دیکھنے سے کیوں خفا ہوتا ہے اے ظالم
ترا لیتے ہیں کیا ٹک اک نظر سے دیکھ لیتے ہیں
لاابالی مری دیکھے ہے تو آئینہ کہاں
دل ترا اور کہیں ہے تو نظر اور کہیں
اے مصحفیؔ میں ان کو اب چھوڑتا ہوں کوئی
وہ بعد مدتوں کے میری نظر پڑے ہیں
مصطفٰی خان شیفتہ
آز و ہوس سے خلق ہوا ہے یہ نامراد
دل پر نگاہ کیا ہے ، وہ مجھ پر نظر کریں
اس بزم میں ہر ایک سے کم تر نظر آیا
وہ حسن کہ خورشید کے عہدے سے بر آیا
حالِ دلِ صد چاک پہ کٹتا ہے کلیجا
ہر پارہ اک الماس کا ٹکڑا نظر آیا
سامان وہ کہ آئے نہ چشمِ خیال میں
آ اے رقیب دیکھ کہ پیشِ نظر ہے آج
عشاق سے نگاہ نہ رکھو دریغ تم
پاتے ہیں لوگ خدمت اہلِ نظر سے فیض
مومن خان مومن
میرے تغییر رنگ کو مت دیکھ
تجھ کو اپنی نظر نہ ہو جائے
میر مہدی مجروح
کسی سے عشق اپنا کیا چھپائیں
محبت ٹپکی پڑتی ہے نظر سے
بھلا دل کا کہاں ملنا کہ ان کی
نظر بھی تو نہیں ملتی نظر سے
فیض احمد فیض
برس رہی ہے حریم ہوس میں دولتِ حسن
گدائے عشق کے کاسے میں اک نظر بھی نہیں
کچھ دن سے انتظار سوال دگر میں ہے
وہ مضمحل حیا جو کسی کی نظر میں ہے
کیا جانے کس کو کس سے ہے داد کی طلب
وہ غم جو میرے دل میں ہے تیری نظر میں ہے
وہ رنگ ہے امسال گلستاں کی فضا کا
اوجھل ہوئی دیوار قفس حدِ نظر سے
لٹ رہی ہے مری متاع نیاز
کاش وہ اس طرف نظر کر دے
وہ تو وہ ہے ، تمہیں ہو جائے گی الفت مجھ سے
اک نظر تم مرا محبوبِ نظر تو دیکھو
کب مہکے گی فصلِ گل، کب بہکے گا میخانہ
کب صبحِ سخن ہو گی، کب شامِ نظر ہو گی
پھر آئنۂ عالم شاید کہ نکھر جائے
پھر اپنی نظر شاید تا حدِ نظر جائے
مرزا رفیع سودا
وہم غلط کار نے دل خوش کیا
کس پہ نہ جانے وہ نظر کر گیا
اور غزل اب کوئی سودا تو کہہ
یہ تو یوں ہی تھی میں نظر کر گیا
کیا ضد ہے مرے ساتھ خدا جانے وگرنہ
کافی ہے تسلی کو مری ایک نظر بھی
میر انیس
تجھی کو دیکھوں گا جب تک ہیں برقرار آنکھیں
مری نظر نہ پھرے گی تری نظر کی طرح
یگانہ چنگیزی
ہم مانگتے ہی کیوں جو یہی جانتے ساقی
پھر جائے گی قسمت کی طرح تیری نظر بھی
پھڑکا کیے مرقع عالم کے حسن پر
ٹھہری کبھی نہ اہلِ ہوس کی نظر کہیں
گریباں میں منہ ڈال کر خود تو دیکھیں
برائی پہ میری نظر کرنے والے
اس آئینہ خانے میں کیا سر اٹھاتے
حقیقت پر اپنی نظر کرنے والے
اف ری چشم عتاب اف رے جلال
برق سوزاں ہوئی نظر نہ ہوئی
گر یاد میں ساقی کی ساغر نظر آ جائے
پیمانۂ دل چھلکے منہ کو جگر آ جائے
عکس رخ ساقی کو گر دیکھ لوں ساغر میں
کچھ دل کے بہلنے کی صورت نظر آ جائے
ہاں سیر تو کر غافل اس گورِ غریباں کی
انجام تجھے اپنا شاید نظر آ جائے
پھر جائیں ہمیشہ کو دنیا سے مری آنکھیں
مرتے دم اگر جلوہ تیرا نظر آ جائے
باقی صدیقی
کرم ہے ہم پہ تیری اک نظر بھی
مگر یوں زندگی ہو گی بسر بھی
کچھ اتنا بے ثبات تھا ہر جلوہ حیات
لوٹ آئی زخم کھا کے جدھر بھی نظر گئی
کچھ اتنا بے ثبات تھا ہر منظر حیات
اک زخم کھا کے آئی جدھر بھی نظر گئی
جب ان کو خیال وضع آیا
انداز بدل گئے نظر کے
ہر بات سے باخبر رہی ہے
جب تک کہ نظر نظر رہی ہے
رنگِ دل، رنگ نظر یاد آیا
تیرے جلوؤں کا اثر یاد آیا
ہر رہرو اخلاص پہ رہتی ہے نظر اب
رہزن کی طرح کرتے ہیں ہم لوگ سفر اب
پھولوں میں چھپا بیٹھا ہوں اک زخم کی صورت
کھا جاتی ہے دھوکا مری اپنی بھی نظر اب
کر لیا آپ نے گھر آنکھوں میں
اب کھٹکتی ہے نظر آنکھوں میں
چھا کر دلوں پہ ان کی نظر مطمئن نہیں
تاروں کو روند کر بھی سحر مطمئن نہیں
غم رفتہ رفتہ بڑھتے گئے زندگی کے ساتؒ
دل مطمئن ہوا تو نظر مطمئن نہیں
باقیؔ عجیب روگ ہے یہ رنگ و بو کی پیاس
دل مطمئن ہوا تو نظر مطمئن نہیں
زندگی ہے وہ آئنہ جس میں
اپنی صورت نظر نہیں آتی
رند بکھرے ہیں ساغروں کی طرح
رنگِ محفل پہ اک نظر ساقی
کیا ملے گی ہمیں خبر اپنی
ہے گراں خود پہ اک نظر اپنی
چل سکے دل کے نہ ہمراہ نظر کے ساتھی
راہگزر ہی میں رہے راہگزر کے ساتھی
اعتبار نظر کریں کیسے
ہم ہوا میں بسر کریں کیسے
قطرے کی آرزو سے گہرا آئنہ بنے
آئنہ ساتھ دے تو نظر آئنہ بنے
باقیؔ ہے ٹوٹنے کو اب امید کا طلسم
اک آخری فریبِ نظر کی تلاش ہے
آپ کے اٹھتے ہی ساری دنیا
لغزشیں کھاتی نظر آئی ہے
ہر لرزتے ہوئے تارے میں ہمیں
اپنی تصویر نظر آئی ہے
زندگی اس کی ہے جو دنیا کو
زندگی دے کے نظر لے آئے
جون ایلیا
اس کے دیدار کی امید کہاں
جب کہ ہے دید کو نظر درپیش
پر حال ہوں پہ صورت احوال کچھ نہیں
حیرت ہے میرے پاس نظر کس کے پاس ہے
جگر مراد آبادی
دل تو یوں دل سے ملایا کہ نہ رکھا میرا
اب نظر کے لیے کیا حکم نظر ہوتا ہے
میں گنہ گار جنوں میں نے یہ مانا لیکن
کچھ ادھر سے بھی تقاضائے نظر ہوتا ہے
ہر سو دکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے
ڈالا ہے بے خودی نے عجب راہ پر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے
کرنا ہے آج حضرتِ ناصح سے سامنا
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے
ڈرتا ہوں جلوۂ رخ جاناں کو دیکھ کر
اپنا بنا نہ لے کہیں میری نظر مجھے
سینے سے دل عزیز ہے دل سے ہو تم عزیز
سب سے مگر عزیز ہے تیری نظر مجھے
میں دور ہوں تو روئے سخن مجھ سے کس لیے
تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتے نظر مجھے
ہاں مبارک اب ہے معراج نظر میرے لیے
جس قدر وہ دور تر نزدیک تر میرے لیے
وقف ہے صیاد کی اک اک نظر میرے لیے
ہاں مبارک یہ شکست بال و پر میرے لیے
میں نہیں کہتا کہ میں ہوں تو ہو تیری خلوتیں
ہاں مگر سب سے جدا خاص اک نظر میرے لیے
پھر بھی آنکھیں ڈھونڈتی ہیں اک سراپا ناز کو
میں نے مانا کچھ نہیں حدِ نظر میرے لیے
تھا کھیل سا پہلے عشق لیکن جو کھلیں آنکھیں
ڈوبا ہوا رگ رگ میں وہ تیرِ نظر دیکھا
جاتے رہے دم بھر میں سارے ہی گلے شکوے
اس جان تغافل نے جب ایک نظر دیکھا
اس چشم غزالیں کو مے خانۂ دل پایا
اس روئے نگاریں کو فردوس نظر دیکھا
کیے مجھ پہ احساں غمِ یار نے
ہمیشہ کو نیچی نظر ہو گئی
خواجہ میر درد
پھرتے تو ہو بنائے سج اپنی جدھر تدھر
لگ جاؤے دیکھیو نہ کسو کی نظر کہیں
نہ پایا جو گیا اس باغ سے ہرگز سراغ اس کا
نہ پلٹی پھر صبا ایدھر نہ پھر آئی نظر شبنم
سراج الدین ظفر
آہوان شب گریزاں ہوں تو ان کی راہ میں
دام دل رکھ دیجیے دام نظر رکھ دیجیے
عبدالحمید عدم
وہی شے مقصد قلب و نظر محسوس ہوتی ہے
کمی جس کی برابر عمر بھر محسوس ہوتی ہے
جتن بھی کیا حسیں سوجھا ہے تجھ کو پیار کرنے کا
تری صورت مجھے اپنی نظر محسوس ہوتی ہے
گلی کوچوں میں صحن میکدہ کا رنگ ہوتا ہے
مجھے دنیا ترا کیف نظر محسوس ہوتی ہے
قمر جلالوی
اک وہ بھی ہے بیمار تری کم نظر کا
مر جائے مگر نام نہ لے چارہ گری کا
مکاں دیکھا کیے مڑ مڑ کے تا حدِ نظر اپنا
جو بس چلتا تو لے آتے قفس میں گھر کا گھر اپنا
یہی تیرِ نظر ہیں مرے دل میں حسینوں کے
جو پہچانو تو لو پہچان لو تیرِ نظر اپنا
اتنا سبک نہ کیجیے احباب کی نظر میں
اٹھتی ہے میری میت بیٹھے ہیں آپ گھر میں
حالاں کہ اور بھی تھے نغمہ طرازِ گلشن
اک میں کھٹک رہا تھا صیاد کی نظر میں
ممکن ہے کوئی موج ہو ساحل ادھر نہ ہو
اے نا خدا کہیں یہ فریبِ نظر نہ ہو
تاروں کی سیر دیکھ رہے ہیں نقاب سے
ڈر بھی رہے ہیں مجھ پہ قمر کی نظر نہ ہو
اس وعدہ فراموش کے آنسو نکل گئے
بیمار نے جو چہرے پر حسرت سے نظر کی
پوری کیا موسیٰؑ تمنا طور پر ہو جائے گی
تم اگر اوپر گئے نیچی نظر ہو جائے گی
کیا آ رہے ہو واقعی تم میرے ساتھ ساتھ
یہ کام کر رہا ہے فریبِ نظر ابھی
مجھے صورت دیکھا کر چاہے پھر دشمن کے گھر ہوتے
دم آنکھو میں نہ رک جاتا اگر پیشِ نظر ہوتے
آخر ہے وقت دیکھ لو بھر کر نظر مجھے
بیٹھو نہ ذبحِ کرنے کو منہ پھیر کر مجھے
تعریف حسن کی جو کبھی ان کے سامنے
بولے کہ لگ نہ جائے تمھاری نظر مجھے
جوانی آ گئی دل چھیدنے کی بڑھ گئیں مشقیں
چلانا آ گیا تیرِ نظر آہستہ آہستہ
جسے اب دیکھ کر اک جان پڑتی ہے محبت میں
یہی بن جائے گی قاتل نظر آہستہ آہستہ
ان کی محفل میں انہیں سب رات بھر دیکھا کیے
ایک ہم ہی تھے کہ اک اک کی نظر دیکھا کیے
شکیب جلالی
سائے میں جان پڑ گئی دیکھا جو غور سے
مخصوص یہ کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ
عرفان صدیقی
طوفاں میں تا بہ حدِ نظر کچھ نہیں بچا
اب دیکھنے کو دیدۂ تر، کچھ نہیں بچا
زمیں نامہرباں اتنی نہیں تھی
فلک حدِ نظر ایسا نہیں تھا
اپنے لہو کے شور سے تنگ آ چکا ہوں میں
کس نے اسے بدن میں نظر بند کر دیا
ہوا کی طرح نہ دیکھی مری خزاں کی بہار
کھلا کے پھول مرا خوش نظر چلا بھی گیا
یہی خیال مجھے جگمگائے رکھتا ہے
کہ میں رضائے ستارہ نظر پہ راضی ہوں
مرا گھر پاس آتا جا رہا ہے
وہ مینارے نظر آنے لگے ہیں
نیند کے شہرِ طلسمات میں دیکھیں کیا ہے
جاگتے میں تو بہت خواب نظر آ گئے ہیں
دل کے آئینے سے رخصت ہوا زنگارِ ملال
اس میں اب کوئی بھی چہرا نظر آنے کا نہیں
نوک سناں نے بیعتِ جاں کا کیا سوال
سر نے کہاں قبول‘ نظر نے کہا نہیں
یہ جہاں کیا ہے بس اک صفحۂ بے نقش و نگار
اور جو کچھ ہے ترا حسنِ نظر ہے سائیں
زمین پھر بھی کشادہ ہے بال و پر کے لیے
کہ آسمان تو حدِ نظر نکلتا ہے
بے دلاں، کارِ نظر ختم کہاں ہوتا ہے
رک بھی جائیں تو سفر ختم کہاں ہوتا ہے
راستہ کیا کیا چراغوں کی طرح تکتے تھے لوگ
سلسلہ آنکھوں میں تا حدِ نظر آنکھوں کا ہے
منظر میں جتنے رنگ ہیں نیرنگ اسی کے ہیں
حیرانیوں میں ذوقِ نظر بھی اسی کا ہے
غبار میں کوئی ناقہ سوار ہو شاید
سو راستے پہ نظر آتی جاتی رہتی ہے
خلاء میں کیا نظر آتے ، زمین پر نہیں آئے
ستارہ جو کو فرشتے کہیں نظر نہیں آئے
مصطفی زیدی
یوں ہی اک روز اپنے دل کا قصہ بھی سنا دینا
خطاب آہستہ آہستہ نظر آہستہ آہستہ
الطاف حسین حالی
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں
احسان دانش
رندان تشنہ کام کو جا کر خبر کریں
آئی بہار ابرِ کرم پر نظر کریں
مجھ پر اٹھا رہے ہیں جو محفل میں انگلیاں
اپنی حقیقتوں پہ تو آخر نظر کریں
اف رے جمال جلوۂ جاناں کی تابشیں
دیکھیں انہیں کہ ماتم تابِ نظر کریں
میں رویا تو ہنسنے کی صدا آئی کئی یار
وہ جان تمنا پس دیوار نظر تھا
اختر شیرانی
پاسبانان حیا کیا ہوئے اے دولتِ حسن
ہم چرا کر تری دزدیدہ نظر جاتے ہیں
جس طرح بھولے مسافر کوئی ساماں اپنا
ہم یہاں بھول کے دل اور نظر جاتے ہیں
کیا کہہ گئی کسی کی نظر کچھ نہ پوچھئے
کیا کچھ ہوا ہے دل پہ اثر کچھ نہ پوچھئے
اسرار الحق مجاز
بس اس تقصیر پر اپنے مقدر میں ہے مر جانا
تبسم کو تبسم کیوں نظر کو کیوں نظر جانا
خرد والوں سے حسن و عشق کی تنقید کیا ہو گی
نہ افسون نگہ سمجھا نہ اندازِ نظر جانا
حسن پھر فتنہ گر ہے کیا کہیے
دل کی جانب نظر ہے کیا کہیے
حسنِ خود پردہ ور ہے کیا کہیے
یہ ہماری نظر ہے کیا کہیے
حسن ہے اب نہ حسن کے جلوے
اب نظر ہی نظر ہے کیا کہیے
دکھا دے ایک دن اے حسن رنگیں جلوہ گر ہو کر
وہ نظارہ جو ان آنکھوں میں رہ جائے نظر ہو کر
وہی جلوے جو اک دن دامنِ دل سے گریزاں تھے
نظر میں رہ گئے گل ہائے دامان نظر ہو کر
جلوے تھے حلقۂ سر دام نظر سے باہر
میں نے ہر جلوے کو پابند نظر جانا تھا
بیخود بدایونی
غفلت کے پڑے ہوئے تھے پردے
وہ پاس رہا نظر نہ آیا
آنکھوں سے ہوا جو کوئی اوجھل
بیخودؔ مجھے کچھ نظر نہ آیا
ظہیر کاشمیری
اہلِ دل ملتے نہیں اہلِ نظر ملتے نہیں
ظلمت دوراں میں خورشید سحر ملتے نہیں
ذوقِ نظارہ دلوں میں دفن ہو کر رہ گیا
آنکھ والوں میں بھی اب اہلِ نظر ملتے نہیں
عبید اللہ علیم
یہ اور بات کہ اس عہد کی نظر میں ہوں
ابھی میں کیا کہ ابھی منزل سفر میں ہوں
مرا ہی رنگ تھے تو کیوں نہ بس رہے مجھ میں
مرا ہی خواب تھے تو کیوں مری نظر سے گئے
علی سردار جعفری
کیا حسن ہے دنیا میں کیا لطف ہے جینے میں
دیکھے تو کوئی میرا اندازِ نظر لے کر
مرے لیے ہے مری مفلسی و ناپاکی
تم اپنی پاکی قلب و نظر کی خیر مناؤ
غلام محمد قاصر
اڑانوں آسمانوں آشیانوں کے لیے طائر!
یہ پر ٹوٹے ہوئے میرے یہ معیار نظر لے جا
پھر وہی کہنے لگے تو مرے گھر آیا تھا
چاند جن چار گواہوں کو نظر آیا تھا
بھول بیٹھے ہیں نئے خواب کی سرشاری میں
اس سے پہلے بھی تو اک خواب نظر آیا تھا
فارغ بخاری
کچھ نہیں گرچہ تری راہ گزر سے آگے
دیکھنا کفر نہیں حدِ نظر سے آگے