مرزا غالب


انشاء اللہ خان انشا


بہادر شاہ ظفر


حیدر علی آتش


داغ دہلوی


شیخ ابراہیم ذوق


مصحفی غلام ہمدانی


مصطفٰی خان شیفتہ


مومن خان مومن


میر مہدی مجروح


فیض احمد فیض


مرزا رفیع سودا


میر انیس


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی

کرم ہے ہم پہ تیری اک نظر بھی
مگر یوں زندگی ہو گی بسر بھی
کچھ اتنا بے ثبات تھا ہر جلوہ حیات
لوٹ آئی زخم کھا کے جدھر بھی نظر گئی
کچھ اتنا بے ثبات تھا ہر منظر حیات
اک زخم کھا کے آئی جدھر بھی نظر گئی
جب ان کو خیال وضع آیا
انداز بدل گئے نظر کے
ہر بات سے باخبر رہی ہے
جب تک کہ نظر نظر رہی ہے
رنگِ دل، رنگ نظر یاد آیا
تیرے جلوؤں کا اثر یاد آیا
ہر رہرو اخلاص پہ رہتی ہے نظر اب
رہزن کی طرح کرتے ہیں ہم لوگ سفر اب
پھولوں میں چھپا بیٹھا ہوں اک زخم کی صورت
کھا جاتی ہے دھوکا مری اپنی بھی نظر اب
کر لیا آپ نے گھر آنکھوں میں
اب کھٹکتی ہے نظر آنکھوں میں
چھا کر دلوں پہ ان کی نظر مطمئن نہیں
تاروں کو روند کر بھی سحر مطمئن نہیں
غم رفتہ رفتہ بڑھتے گئے زندگی کے ساتؒ
دل مطمئن ہوا تو نظر مطمئن نہیں
باقیؔ عجیب روگ ہے یہ رنگ و بو کی پیاس
دل مطمئن ہوا تو نظر مطمئن نہیں
زندگی ہے وہ آئنہ جس میں
اپنی صورت نظر نہیں آتی
رند بکھرے ہیں ساغروں کی طرح
رنگِ محفل پہ اک نظر ساقی
کیا ملے گی ہمیں خبر اپنی
ہے گراں خود پہ اک نظر اپنی
چل سکے دل کے نہ ہمراہ نظر کے ساتھی
راہگزر ہی میں رہے راہگزر کے ساتھی
اعتبار نظر کریں کیسے
ہم ہوا میں بسر کریں کیسے
قطرے کی آرزو سے گہرا آئنہ بنے
آئنہ ساتھ دے تو نظر آئنہ بنے
باقیؔ ہے ٹوٹنے کو اب امید کا طلسم
اک آخری فریبِ نظر کی تلاش ہے
آپ کے اٹھتے ہی ساری دنیا
لغزشیں کھاتی نظر آئی ہے
ہر لرزتے ہوئے تارے میں ہمیں
اپنی تصویر نظر آئی ہے
زندگی اس کی ہے جو دنیا کو
زندگی دے کے نظر لے آئے

جون ایلیا


جگر مراد آبادی

دل تو یوں دل سے ملایا کہ نہ رکھا میرا
اب نظر کے لیے کیا حکم نظر ہوتا ہے
میں گنہ گار جنوں میں نے یہ مانا لیکن
کچھ ادھر سے بھی تقاضائے نظر ہوتا ہے
ہر سو دکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے
ڈالا ہے بے خودی نے عجب راہ پر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے
کرنا ہے آج حضرتِ ناصح سے سامنا
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے
ڈرتا ہوں جلوۂ رخ جاناں کو دیکھ کر
اپنا بنا نہ لے کہیں میری نظر مجھے
سینے سے دل عزیز ہے دل سے ہو تم عزیز
سب سے مگر عزیز ہے تیری نظر مجھے
میں دور ہوں تو روئے سخن مجھ سے کس لیے
تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتے نظر مجھے
ہاں مبارک اب ہے معراج نظر میرے لیے
جس قدر وہ دور تر نزدیک تر میرے لیے
وقف ہے صیاد کی اک اک نظر میرے لیے
ہاں مبارک یہ شکست بال و پر میرے لیے
میں نہیں کہتا کہ میں ہوں تو ہو تیری خلوتیں
ہاں مگر سب سے جدا خاص اک نظر میرے لیے
پھر بھی آنکھیں ڈھونڈتی ہیں اک سراپا ناز کو
میں نے مانا کچھ نہیں حدِ نظر میرے لیے
تھا کھیل سا پہلے عشق لیکن جو کھلیں آنکھیں
ڈوبا ہوا رگ رگ میں وہ تیرِ نظر دیکھا
جاتے رہے دم بھر میں سارے ہی گلے شکوے
اس جان تغافل نے جب ایک نظر دیکھا
اس چشم غزالیں کو مے خانۂ دل پایا
اس روئے نگاریں کو فردوس نظر دیکھا
کیے مجھ پہ احساں غمِ یار نے
ہمیشہ کو نیچی نظر ہو گئی

خواجہ میر درد


سراج الدین ظفر


عبدالحمید عدم


قمر جلالوی

اک وہ بھی ہے بیمار تری کم نظر کا
مر جائے مگر نام نہ لے چارہ گری کا
مکاں دیکھا کیے مڑ مڑ کے تا حدِ نظر اپنا
جو بس چلتا تو لے آتے قفس میں گھر کا گھر اپنا
یہی تیرِ نظر ہیں مرے دل میں حسینوں کے
جو پہچانو تو لو پہچان لو تیرِ نظر اپنا
اتنا سبک نہ کیجیے احباب کی نظر میں
اٹھتی ہے میری میت بیٹھے ہیں آپ گھر میں
حالاں کہ اور بھی تھے نغمہ طرازِ گلشن
اک میں کھٹک رہا تھا صیاد کی نظر میں
ممکن ہے کوئی موج ہو ساحل ادھر نہ ہو
اے نا خدا کہیں یہ فریبِ نظر نہ ہو
تاروں کی سیر دیکھ رہے ہیں نقاب سے
ڈر بھی رہے ہیں مجھ پہ قمر کی نظر نہ ہو
اس وعدہ فراموش کے آنسو نکل گئے
بیمار نے جو چہرے پر حسرت سے نظر کی
پوری کیا موسیٰؑ تمنا طور پر ہو جائے گی
تم اگر اوپر گئے نیچی نظر ہو جائے گی
کیا آ رہے ہو واقعی تم میرے ساتھ ساتھ
یہ کام کر رہا ہے فریبِ نظر ابھی
مجھے صورت دیکھا کر چاہے پھر دشمن کے گھر ہوتے
دم آنکھو میں نہ رک جاتا اگر پیشِ نظر ہوتے
آخر ہے وقت دیکھ لو بھر کر نظر مجھے
بیٹھو نہ ذبحِ کرنے کو منہ پھیر کر مجھے
تعریف حسن کی جو کبھی ان کے سامنے
بولے کہ لگ نہ جائے تمھاری نظر مجھے
جوانی آ گئی دل چھیدنے کی بڑھ گئیں مشقیں
چلانا آ گیا تیرِ نظر آہستہ آہستہ
جسے اب دیکھ کر اک جان پڑتی ہے محبت میں
یہی بن جائے گی قاتل نظر آہستہ آہستہ
ان کی محفل میں انہیں سب رات بھر دیکھا کیے
ایک ہم ہی تھے کہ اک اک کی نظر دیکھا کیے

شکیب جلالی


عرفان صدیقی

طوفاں میں تا بہ حدِ نظر کچھ نہیں بچا
اب دیکھنے کو دیدۂ تر، کچھ نہیں بچا
زمیں نامہرباں اتنی نہیں تھی
فلک حدِ نظر ایسا نہیں تھا
اپنے لہو کے شور سے تنگ آ چکا ہوں میں
کس نے اسے بدن میں نظر بند کر دیا
ہوا کی طرح نہ دیکھی مری خزاں کی بہار
کھلا کے پھول مرا خوش نظر چلا بھی گیا
یہی خیال مجھے جگمگائے رکھتا ہے
کہ میں رضائے ستارہ نظر پہ راضی ہوں
مرا گھر پاس آتا جا رہا ہے
وہ مینارے نظر آنے لگے ہیں
نیند کے شہرِ طلسمات میں دیکھیں کیا ہے
جاگتے میں تو بہت خواب نظر آ گئے ہیں
دل کے آئینے سے رخصت ہوا زنگارِ ملال
اس میں اب کوئی بھی چہرا نظر آنے کا نہیں
نوک سناں نے بیعتِ جاں کا کیا سوال
سر نے کہاں قبول‘ نظر نے کہا نہیں
یہ جہاں کیا ہے بس اک صفحۂ بے نقش و نگار
اور جو کچھ ہے ترا حسنِ نظر ہے سائیں
زمین پھر بھی کشادہ ہے بال و پر کے لیے
کہ آسمان تو حدِ نظر نکلتا ہے
بے دلاں، کارِ نظر ختم کہاں ہوتا ہے
رک بھی جائیں تو سفر ختم کہاں ہوتا ہے
راستہ کیا کیا چراغوں کی طرح تکتے تھے لوگ
سلسلہ آنکھوں میں تا حدِ نظر آنکھوں کا ہے
منظر میں جتنے رنگ ہیں نیرنگ اسی کے ہیں
حیرانیوں میں ذوقِ نظر بھی اسی کا ہے
غبار میں کوئی ناقہ سوار ہو شاید
سو راستے پہ نظر آتی جاتی رہتی ہے
خلاء میں کیا نظر آتے ، زمین پر نہیں آئے
ستارہ جو کو فرشتے کہیں نظر نہیں آئے