محروم شہادت کی ہے کچھ تجھ کو
خبر بھی
او دشمنِ جاں دیکھ ذرا پھر کے
ادھر بھی
ہے جان کے ساتھ اور اک ایمان کا
ڈر بھی
وہ شوخ کہیں دیکھ نہ لے مڑ کے
ادھر بھی
وہ ہم سے نہیں ملتے ہم ان سے نہیں ملتے
اک ناز دل آویز ادھر بھی ہے
ادھر بھی
ٹھنڈا ہو کلیجا مرا اس آہ سحر سے
جب دل کی طرح جلنے لگے غیر کا
گھر بھی
اللہ ری بے تابی دل وصل کی شب کو
کچھ کشمکش شوق بھی کچھ صبح کا
ڈر بھی
انگڑائیاں لے لے کے اٹھے صاحب محفل
کچھ نیند بھی آنکھوں میں ہے کچھ مے کا
اثر بھی
ہم مانگتے ہی کیوں جو یہی جانتے ساقی
پھر جائے گی قسمت کی طرح تیری
نظر بھی
ہم ہاتھ سے دل تھامے ہوئے دور کھڑے ہیں
دیکھیں تو کوئی لیتا ہے کچھ اس کا
اثر بھی
اے جذبۂ دل دیکھ بہت تو نے کمی کی
ہاں آہوں میں اب چاہیے تھوڑا سا
اثر بھی
اب چپ رہو جو دل پہ گزرنی تھی وہ گزری
ایسا نہ ہو پھٹ جائے کہیں زخمِ
جگر بھی
محروم شہادت تجھے کچھ شرم نہ آئی
کم بخت گلا کاٹ کے جلدی کہیں
مر بھی
بھاری ہے مسافر پہ بہت گور کی منزل
سنتے ہیں کہ اس راہ میں ہے جان کا
ڈر بھی
وہ کشمکش غم ہے کہ میں کہہ نہیں سکتا
آغاز کا افسوس اور انجام کا
ڈر بھی
کھول آنکھیں ذرا مست ہے کیا ساغرِ جم سے
ہے گردشِ ایام کی کچھ تجھ کو
خبر بھی
لیلی شبِ ہجر نے بکھرا دیے گیسو
ماتم میں مرے چاکِ گریباں ہے
سحر بھی
کس شان سے آتی ہے مری شام مصیبت
وہ دیکھو جلو میں ہے قیامت کی
سحر بھی
بجھتی ہوئی اک شمع ہوں کیا دم کا بھروسا
دشمن ہے مری جان کی اب آہ
سحر بھی
دیکھے کوئی جاتی ہوئی دنیا کا تماشا
بیمار بھی سر دھنتا ہے اور شمعِ
سحر بھی
صحرا کی ہوا کھینچے لیے جاتی ہے مجھ کو
کہتا ہے وطن دیکھ ذرا پھر کے
ادھر بھی
ہاں کٹ گئی شاید ترے دیوانے کی بیڑی
پچھلے پہر آئی تھی کچھ آواز
ادھر بھی
کیا وعدۂ دیدار کو سچ جانتے ہو یاسؔ
لو فرض کرو آئی قیامت کی
سحر بھی
اللہ مبارک کرے پیری کی سحر یاسؔ
مرنے کی تمنا تھی تو لے اب کہیں
مر بھی