حیدر علی آتش


شیخ ابراہیم ذوق


مصحفی غلام ہمدانی


فیض احمد فیض


مرزا رفیع سودا


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی


جون ایلیا

بے دلی کیا یوں ہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے
کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
اب کون زخم و زہر سے رکھے گا سلسلہ
جینے کی اب ہوس ہے ہمیں ہم تو مر گئے
میں تو صفوں کے درمیاں کب سے پڑا ہوں نیم جاں
میرے تمام جاں نثار میرے لیے تو مر گئے
دھوئیں میں سانس ہیں سانسوں میں پل ہیں
میں روشندان تک بس مر رہا ہوں
جانے گماں کی وہ گلی ایسی جگہ ہے کون سی
دیکھ رہے ہو تم کہ میں پھر وہیں جا کے مر رہا
یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا
وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے
کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں
خود سے مایوس ہو کے بیٹھا ہوں
آج ہر شخص مر گیا ہو گا
آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں
دل مری جان مر گیا کب کا
سہولت سے گزر جاؤٔ مری جاں
کہیں جینے کی خاطر مر نہ رہیو
دیکھیں تو چل کے یار طلسمات سمت دل
مرنا بھی پڑ گیا تو چلو مر بھی آئیں گے
اب تم بھی تو جی کے تھک رہے ہو
اب میں بھی تو مر کے تھک گیا ہوں

جگر مراد آبادی


خواجہ میر درد


عبدالحمید عدم


قمر جلالوی


شکیب جلالی


عرفان صدیقی