تو ہی بتا مجھے میں کدھر جاؤں کیا کروں

مصحفی غلام ہمدانی


جیتا رہوں کہ ہجر میں مر جاؤں کیا کروں
تو ہی بتا مجھے میں کدھر جاؤں کیا کروں
ہے اضطرابِ دل سے نپٹ عرصہ مجھ پہ تنگ
آج اس تلک بہ دیدۂ تر جاؤں کیا کروں
حیران ہوں کہ کیوں کہ یہ قصہ چکے مرا
سر رکھ کے تیغ ہی پہ گزر جاؤں کیا کروں
بتلا دے تو ہی واشد دل کا مجھے علاج
گلشن میں اے نسیمِ سحر جاؤں کیا کروں
بیٹھا رہوں کہاں تلک اس در پہ مصحفیؔ
اب آئی شام ہونے کو گھر جاؤں کیا کروں
فہرست