ڈبرے جو تھے خشک بھر گئے ہم

مرزا رفیع سودا


لے دیدۂ تر جدھر گئے ہم
ڈبرے جو تھے خشک بھر گئے ہم
تجھ عشق میں روز خوش نہ دیکھا
دکھ بھرتے ہی بھرتے مر گئے ہم
تیرا جو ستم ہے اس کی تو جان
اپنی تھی سو خوب کر گئے ہم
یہ قطعہ پڑھے تھا سوزِ دل سے
سودا کے جو رات گھر گئے ہم
جوں شمع لبوں پر آ رہا جی
تن تھا سو گداز کر گئے ہم
اتنی بھی پتنگ پیش قدمی!
گر شام نہیں سحر گئے ہم
ہو گی نہ کسی کو یہ خبر بھی
اس مجلس سے کدھر گئے ہم
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست