کیوں تجھ سے گریز کر گئے ہم

باقی صدیقی


کیا دورِ جہاں سے ڈر گئے ہم
کیوں تجھ سے گریز کر گئے ہم
حیرت ہے کہ سامنے سے تیرے
غیروں کی طرح گزر گئے ہم
وہ دور بھی زندگی میں آیا
محسوس ہوا کہ مر گئے ہم
اے دشت حیات کے بگولو
ڈھونڈو تو سہی کدھر گئے ہم
آئی یہ کدھر سے تیری آواز
چلتے چلتے ٹھہر گئے ہم
گزری ہے صبا قفس سے ہو کے
لینا غم بال و پر گئے ہم
ساحل کا مرحلہ ہے باقیؔ
طوفاں سے تو پار اتر گئے ہم
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست