کتنے پردے اٹھائیں گے ہم

باقی صدیقی


کیا زیست کا راز پائیں گے ہم
کتنے پردے اٹھائیں گے ہم
ایک اپنی وفا کی روشنی سے
کس کس کا دیا جلائیں گے ہم
ہر رنگ جہاں سے ہٹ کے دیکھو
اس طرح نظر نہ آئیں گے ہم
یوں نکلے ہیں تیری جستجو میں
جیسے تجھے ڈھونڈ لائیں گے ہم
انداز جہاں کے دیکھتے ہیں
اپنی بھی خبر نہ پائیں گے ہم
اک بات نہ اٹھ سکے جہاں کی
کیا بار حیات اٹھائیں گے ہم
آغازِ سفر میں کیا خبر تھی
یوں راہ میں بیٹھ جائیں گے ہم
جو دل پہ گزر رہی ہے باقیؔ
تجھ کو بھی نہ اب بتائیں گے ہم
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست