باز آئے اس آ گہی سے ہم

باقی صدیقی


خود کو لگتے ہیں اجنبی سے ہم
باز آئے اس آ گہی سے ہم
ہر تمنا ہے دور کی آواز
مر مٹے دور دور ہی سے ہم
راہ کچھ اور ہو گئی تاریک
جب بھی گزرے ہیں روشنی سے ہم
واقف رنگ دہر ہو کر بھی
تجھ سے ملتے ہیں کس خوشی سے ہم
غم کا احساس مٹ گیا شاید
اب الجھتے نہیں کسی سے ہم
کہہ کے روداد زندگی باقیؔ
ہنس دیے کتنی سادگی سے ہم
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست