پاتا نہیں ہوں تب سے میں اپنی خبر کہیں

خواجہ میر درد


ان نے کیا تھا یاد مجھے بھول کر کہیں
پاتا نہیں ہوں تب سے میں اپنی خبر کہیں
آ جائے ایسے جینے سے اپنا تو جی بتنگ
جیتا رہے گا کب تلک اے خضر مر کہیں
پھرتی رہی تڑپتی ہی عالم میں جا بہ جا
دیکھا نہ میری آہ نے روئے اثر کہیں
مدت تلک جہان میں ہنستے پھرا کیے
جی میں ہے خوب رویے اب بیٹھ کر کہیں
یوں تو نظر پڑے ہیں دل افگار اور بھی
دل ریش کوئی آپ سا دیکھا نہ پر کہیں
ظالم جفا جو چاہے سو کر مجھ پہ تو ولے
پچھتاوے پھر تو آپ ہی ایسا نہ کر کہیں
پھرتے تو ہو بنائے سج اپنی جدھر تدھر
لگ جاؤے دیکھیو نہ کسو کی نظر کہیں
پوچھا میں درد سے کہ بتا تو سہی مجھے
اے خانماں خراب ہے تیرے بھی گھر کہیں
کہنے لگا مکان معین فقیر کو
لازم ہے کیا کہ ایک ہی جاگہ ہو ہر کہیں
درویش ہر کجا کہ شب آمد سرائے اوست
تو نے سنا نہیں ہے یہ مصرع مگر کہیں
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست