پر یہ لذت تو وہ ہے جی ہی جسے پاتا ہے

خواجہ میر درد


عشق ہرچند مری جان سدا کھاتا ہے
پر یہ لذت تو وہ ہے جی ہی جسے پاتا ہے
آہ کب تک میں بکوں تیری بلا سنتی ہے
باتیں لوگوں کی جو کچھ دل مجھے سنواتا ہے
ہم نشیں پوچھ نہ اس شوخ کی خوبی مجھ سے
کیا کہوں تجھ سے غرض جی کو مرے بھاتا ہے
بات کچھ دل کی ہمارے تو نہ سلجھی ہم سے
آپی خوش ہووے ہے پھر آپ ہی گھبراتا ہے
جی کڑا کر کے ترے کوچے سے جب جاتا ہوں
دل دشمن یہ مجھے گھیر کے پھر لاتا ہے
راہ پینڈے کبھو اس شوخ کے تئیں ہم سے بھی
دید وا دید تو ہوتی ہے جو مل جاتا ہے
دردؔ کی قدر مرے یار سمجھنا واللہ
ایسا آزاد ترے دام میں یوں آتا ہے
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست