اتنی زنجیروں میں مت جکڑو، بکھر جائیں گے لوگ

عرفان صدیقی


موجِ خوں بن کر کناروں سے گزر جائیں گے لوگ
اتنی زنجیروں میں مت جکڑو، بکھر جائیں گے لوگ
قاتلوں کے شہر میں بھی زندگی کرتے رہے
لوگ شاید یہ سمجھتے تھے کہ مر جائیں گے لوگ
ان گنت منظر ہیں اور دل میں لہو دو چار بوند
رنگ آخر کتنی تصویروں میں بھر جائیں گے لوگ
جسم کی رعنائیوں تک خواہشوں کی بھیڑ ہے
یہ تماشا ختم ہو جائے تو گھر جائیں گے لوگ
جانے کب سے ایک سناٹا بسا ہے ذہن میں
اب کوئی ان کو پکارے گا تو ڈر جائیں گے لوگ
بستیوں کی شکل و صورت مختلف کتنی بھی ہو
آسماں لیکن وہی ہو گا جدھر جائیں گے لوگ
سرخ رو ہونے کو اک سیلاب خوں درکار ہے
جب بھی یہ دریا چڑھے گا پار اترجائیں گے لوگ
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست