بجھے چراغ تو ٹھہرے ستارہ جو ہم لوگ

عرفان صدیقی


اسی کمال کی کرتے تھے آرزو ہم لوگ
بجھے چراغ تو ٹھہرے ستارہ جو ہم لوگ
تو شانِ شعلہ گراں‘ میں نشانِ سوختگان
ہیں اپنے اپنے قبیلے کی آبرو ہم لوگ
ابھی سے راستہ کیوں روکنے لگی دنیا
کھڑے ہوئے ہیں ابھی اپنے روبرو ہم لوگ
دریدہ پیرہنِ جاں ہے دیکھیے کیا ہو
نفس کے تار سے کرتے تو ہیں رفوِ ہم لوگ
جنوں کے فیض سے چرچا بتوں میں وحشت کا
خدا کے فضل سے موضوعِ گفتگو ہم لوگ
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست