مرزا غالب


انشاء اللہ خان انشا


بہادر شاہ ظفر


داغ دہلوی


شیخ ابراہیم ذوق


مصحفی غلام ہمدانی


مصطفٰی خان شیفتہ


میر مہدی مجروح


فیض احمد فیض


مرزا رفیع سودا


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی


جون ایلیا


جگر مراد آبادی


خواجہ میر درد


قمر جلالوی


عرفان صدیقی

اب اور کوئی راہ نکالو کہ صاحبو
جس سمت جا رہے تھے ادھر کچھ نہیں بچا
اب اور کوئی منزلِ دشوار سوچئے
جس سمت جا رہے تھے ادھر کچھ نہیں بچا
خرابوں میں اب ان کی جستجو کا سلسلہ کیا ہے
مرے گردوں شکار آئیں ادھر ایسا نہیں ہو گا
اب کدھر سے وار ہو سکتا ہے یہ بھی سوچئے
کل جدھر سے تیر آیا تھا ادھر کیا دیکھنا
عجیب روشنیاں تھیں وصال کے اس پار
میں اس کے ساتھ رہا اور ادھر چلا بھی گیا
سوچنا کیا ہے اگر دشت زمیں ختم ہوا
میرے دل میں بھی تو صحرا ہے ادھر چلتا ہوں
اے دل وہ دیکھ خیمہ، فردا قریب ہے
تجھ کو فصیلِ شب کے ادھر کیسے چھوڑ دیں
وہاں ہونے کو ہو گی برف باری
پرندے پھر ادھر آنے لگے ہیں
کل اسی موج میں اپنا تھا تو بہہ جانا تھا
جانِ من اب کوئی سیلاب ادھر آنے کا نہیں
مدت سے فقیروں کا یہ رشتہ ہے فلک سے
جس سمت وہ ہوتا ہے ادھر ہم نہیں ہوتے
تیرا یقین سچ ہے مری چشمِ اعتبار
سب کچھ فصیلِ شب کے ادھر بھی اسی کا ہے
پس حصار خبر آتی جاتی رہتی ہے
ہوا ادھر سے ادھر آتی جاتی رہتی ہے
اب ضیابار وہ مہتاب ادھر بھی ہو جائے
ورنہ ممکن ہے مری رات بسر بھی ہو جائے