کب تک کوئی اپنے گھر ہی ٹھہرے

فارغ بخاری


ہم وقت کے ہم سفر ہی ٹھہرے
کب تک کوئی اپنے گھر ہی ٹھہرے
ہے کوکھ کوئی صدف نہیں ہے
لازم تو نہیں گہر ہی ٹھہرے
جی لیں گے وہ لمحہ اوڑھ کر ہم
اے کاش وہ لمحہ بھر ہی ٹھہرے
اونچی تھیں اڑانیں جن کی وہ بھی
زندگی بام و در ہی ٹھہرے
اس شہر میں زندگی گراں ہے
جو ٹھہرے وہ دار پر ہی ٹھہرے
سورج تھا کہ چاند تھا کہ تارے
سب جاہ پرست ادھر ہی ٹھہرے
ہم لوگ وہ ورق پا ہیں فارغؔ
جنت میں بھی مختصر ہی ٹھہرے
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست