مرزا غالب


انشاء اللہ خان انشا


حیدر علی آتش


داغ دہلوی


شیخ ابراہیم ذوق


مصحفی غلام ہمدانی


مومن خان مومن


فیض احمد فیض


یگانہ چنگیزی


باقی صدیقی

ابتدائے سفر کا شوق نہ پوچھ
ہر مسافر کو ہم سفر جانا
لے گیا بچا کر وہ دل کے ساتھ سر اپنا
جس نے تیرے ایما پر طے کیا سفر اپنا
منزل کی خبر نہ رہگزر کی
کیسی صورت ہے یہ سفر کی
منزلروں دل نے لی نہ انگڑائی
حادثے کیا دم سفر گزرے
منزل کے رہے نہ رہگزر کے
اللہ رے حادثے سفر کے
کیسا رستہ ہے کیا سفر ہے
اڑتی ہوئی گرد پر نطر ہے
یہ نیا شہر یہ روشن راہیں
اپنا اندازِ سفر یاد آیا
گرد اڑتی ہے سرِ راہ خیال
دلِ ناداں کا سفر یاد آیا
در و دیوار سے مل کر روئے
کیا ہمیں وقتِ سفر یاد آیا
ہنس کے پھر رہنما نے دیکھا
پھر ہمیں رختِ سفر یاد آیا
ہر رہرو اخلاص پہ رہتی ہے نظر اب
رہزن کی طرح کرتے ہیں ہم لوگ سفر اب
روز اک طرفہ تماشا بن کر
وقت کرتا ہے سفر آنکھوں میں
راستے گونجتے ہیں دل کی طرح
ایک آواز ہم سفر ہے ابھی
ہر کنارے کی طرف صورت دریا دیکھو
راستہ روک بھی لیتے ہیں سفر کے ساتھی
رخ ہوا کا بدلتا رہتا ہے
گرد بن کر سفر کریں کیسے
منزل کے اعتبار سے اٹھتا ہے ہر قدم
رہرو بقدر زوق سفر آئنہ بنے
سوزِ دل، زخمِ جگر لے آئے
حادثے زادِ سفر لے آئے

جون ایلیا


جگر مراد آبادی


خواجہ میر درد


قمر جلالوی


شکیب جلالی


عرفان صدیقی

کچھ نقدِ جاں سفر میں لٹانا بھی ہے ضرور
کیا کیجیے کہ زادِ سفر کچھ نہیں بچا
خشک ہوتا ہی نہیں دیدۂ تر پانی کا
یم بہ یم آج بھی جاری ہے سفر پانی کا
بحدِ وسعتِ زنجیر گردش کرتا رہتا ہوں
کوئی وحشی گرفتارِ سفر ایسا نہیں ہو گا
خواب میں بھی میری زنجیرِ سفر کا جاگنا
آنکھ کیا لگنا کہ اک سودائے سر کا جاگنا
تم یہ دیکھو کہ فقط خاک ہے پیراہن پر
یہ نہ پوچھو کہ مرے رختِ سفر میں کیا تھا
اس انجامِ سفر پر کیا بتاؤں
کہ آغازِ سفر ایسا نہیں تھا
تھا کہیں اک حاصلِ رنجِ سفر جیسا بھی تھا
ان خرابوں سے تو اچھا تھا وہ گھر جیسا بھی تھا
شاید خبر نہیں ہے غزالانِ شہر کو
اب ہم نے جنگلوں کا سفر بند کر دیا
مجھے بچا بھی لیا، چھوڑ کر چلا بھی گیا
وہ مہرباں پسِ گردِ سفر چلا بھی گیا
جانے اس دشت میں بھٹکے گا اکیلا کب تک
میرا ناقہ مری جاگیرِ سفر کا وارث
زمین گھوم رہی ہے ہمارے رخ کے خلاف
اشارہ یہ ہے کہ سمتِ سفر بدل دیں ہم
اب تو باقی ہے یہی سمتِ سفر چلتا ہوں
آج میں بھی طرف دیدۂ تر چلتا ہوں
راہ میں چھوٹتے جاتے ہیں ملاقات کے بوجھ
جانے کیوں لے کے یہ سامانِ سفر چلتا ہوں
جہانِ گم شدگاں کے سفر پہ راضی ہوں
میں تیرے فیصلۂ معتبر پہ راضی ہوں
راہ ستم میں سوزِ جگر کیسے چھوڑ دیں
لمبا سفر ہے زادِ سفر کیسے چھوڑ دیں
پرانی خوشبوؤ! اب میرے ساتھ ساتھ نہ آؤ
یہاں سے اگلی رتوں کا سفر کروں گا میں
لاؤ، اس حرفِ دعا کا بادباں لیتا چلوں
سخت ہوتا ہے سمندر کا سفر سنتا ہوں میں
اور کیا چاہیے پیروں سے گریزاں ہے زمیں
آسمانوں سے تو اذنِ سفر آنے کا نہیں
پاؤں کی فکر نہ کر بار کم و بیش اتار
اصل زنجیر تو سامانِ سفر ہے سائیں
خوشبو کی طرح گرمِ سفر ہم نہیں ہوتے
مٹی ہیں تو پھر شہر بدر ہم نہیں ہوتے
لے جاؤ تم اپنی مہ و انجم کی سواری
ہر شخص کے ہمراہ سفر ہم نہیں ہوتے
اب اس کے بعد گھنے جنگلوں کی منزل ہے
یہ وقت ہے کہ پلٹ جائیں ہم سفر میرے
بے دلاں، کارِ نظر ختم کہاں ہوتا ہے
رک بھی جائیں تو سفر ختم کہاں ہوتا ہے
سوچنا کیاہے ابھی کارِ نظر کا ماحصل
ہم تو یوں خوش ہیں کہ آغازِ سفر آنکھوں کا ہے
دست عصائے معجزہ گر بھی اسی کا ہے
گہرے سمندروں کا سفر بھی اسی کا ہے