یم بہ یم آج بھی جاری ہے سفر پانی کا

عرفان صدیقی


خشک ہوتا ہی نہیں دیدۂ تر پانی کا
یم بہ یم آج بھی جاری ہے سفر پانی کا
دیکھنے میں وہی تصویر ہے سیرابی کی
اور دل پر ہے کوئی نقش دگر پانی کا
کوئی مشکیزہ سر نیزہ علم ہوتا ہے
دیکھئے دشت میں لگتا ہے شجر پانی کا
آج تک گریہ کناں ہے اسی حسرت میں فرات
کاش ہوتا در شبیر پہ سر پانی کا
تیری کھیتی لب دریا ہے تو مغروز نہ ہو
اعتبار اتنا مری جان نہ کر پانی کا
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست