غزل سرا
ہماری کتابیں
شعراء
رابطہ
اکاؤنٹ
رجسٹر
لاگ اِن
غزل سرا کے بارے میں
تلاش
مرزا غالب
گلشن میں بند وبست بہ رنگِ دگر ہے آج
قمری کا طوق حلقۂِ بیرونِ در ہے آج
بہادر شاہ ظفر
رہزنوں میں ناز و غمزہ کی یہ جنس دین و دل
جوں متاع بردہ آخر ہم دگر بٹ جائے گی
داغ دہلوی
تسلی مجھے دے کے جاتے تو ہو
مبادا جو جوع دگر ہو گئی
مصحفی غلام ہمدانی
اس کے کوچے میں ہے نت صورت بیداد نئی
قتل ہر خستہ بانداز دگر ہوتا ہے
فیض احمد فیض
وفا سے وعدہ نہیں، وعدہ دگر بھی نہیں
وہ مجھ سے روٹھے تو تھے لیکن اس قدر بھی نہیں
کچھ دن سے انتظار سوال دگر میں ہے
وہ مضمحل حیا جو کسی کی نظر میں ہے
باقی صدیقی
تجھ سے مل کر بھی نہ تجھ کو پایا
غم بہ اندازِ دگر لے آئے
عرفان صدیقی
دیکھنے میں وہی تصویر ہے سیرابی کی
اور دل پر ہے کوئی نقش دگر پانی کا
بدایوں تیری مٹی سے بچھڑ کر جی رہا ہوں میں
نہیں اے جانِ من، بارِ دگر ایسا نہیں ہو گا
یہ درد رات مرے بے خبر کے نام تمام
اسی چراغِ جہانِ دگر کے نام تمام
مجھے اداس نہ کر اے زوالِ عمر کی رات
میں اس کے وعدۂ شام دگر پہ راضی ہوں
جس کو ہونا ہے وہ فریاد میں شامل ہو جائے
بے نوا شہر میں بارِ دگر آنے کا نہیں
پل بھر کا تماشا ہے سو دیکھو ہمیں اس بار
ایک آئنے میں بارِ دگر ہم نہیں ہوتے
شعاعِ نور نہیں ہے حصار کی پابند
سو اے چراغ مکان دگر سلام تجھے
ہو چکا جو کچھ وہی بارِ دگر کرنا مجھے
پانیوں میں راستہ شعلوں میں گھر کرنا مجھے