مٹی ہیں تو پھر شہر بدر ہم نہیں ہوتے

عرفان صدیقی


خوشبو کی طرح گرمِ سفر ہم نہیں ہوتے
مٹی ہیں تو پھر شہر بدر ہم نہیں ہوتے
پل بھر کا تماشا ہے سو دیکھو ہمیں اس بار
ایک آئنے میں بارِ دگر ہم نہیں ہوتے
کیا ابرِ گریزاں سے شکایت ہو کہ دل میں
صحرا ہی کچھ ایسا ہے کہ تر ہم نہیں ہوتے
لے جاؤ تم اپنی مہ و انجم کی سواری
ہر شخص کے ہمراہ سفر ہم نہیں ہوتے
مدت سے فقیروں کا یہ رشتہ ہے فلک سے
جس سمت وہ ہوتا ہے ادھر ہم نہیں ہوتے
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست